زاہد بھی میری طرح اسی پر فدا نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زاہد بھی میری طرح اسی پر فدا نہ ہو
by راجہ نوشاد علی خان

زاہد بھی میری طرح اسی پر فدا نہ ہو
کعبہ کے پردے میں بت کافر چھپا نہ ہو

تقدیر ہے خلاف تمہاری خطا نہیں
بگڑو ہمیں سے اور کسی سے خفا نہ ہو

آمین کہہ رہے ہیں بتان صنم کدہ
مقبول بارگاہ خدا کیوں دعا نہ ہو

بدلا اگر وفا کا جفا ہو جہان میں
او نا شناس قدر وفا پھر وفا نہ ہو

پائے صنم پہ سر ہے تمنا یہ دل میں ہے
میرے سوا قبول کسی کی دعا نہ ہو

الٹیں تو کس کے سامنے الٹیں نقاب رخ
جب کوئی ان کا دیکھنے والا رہا نہ ہو

قاتل یہ آرزو ترے بسمل کے دل میں ہے
خنجر ہلال بن کے گلے سے جدا نہ ہو

باقی رہے نہ حد کوئی تیرے غرور کی
او بے وفا جو حسن ترا بے وفا نہ ہو

سجدہ کریں ہم اس بت کافر کو دیر میں
کچھ بے خودیٔ عشق میں خوف خدا نہ ہو

اپنا خرام ناز عبث دیکھتے ہو تم
دیکھو مرا نشان لحد مٹ گیا نہ ہو

زاہد حرم سے لائے تجھے کون کھینچ کر
گر بت کدہ میں جلوۂ شان خدا نہ ہو

مرنے کے بعد ان کی حیا ہم سے کم ہوئی
وہ کہہ رہے ہیں روٹھنے والے خفا نہ ہو

رنجیدہ ہو کے در سے جو اٹھتا ہوں کہتے ہیں
دنیا میں زندگی سے کوئی یوں خفا نہ ہو

آتے ہو تم جو روز عیادت کے واسطے
مقصود اس سے یہ ہے کہ مجھ کو شفا نہ ہو

ساقیٔ پاک دل ہمیں آتا نہیں مزہ
جب تک شریک دور کوئی پارسا نہ ہو

وہ حکم دے چکے ہیں کہ اب ان کی بزم میں
دنیا کی گفتگو ہو مرا تذکرہ نہ ہو

قدموں پہ سر جھکائے بڑی دیر ہو گئی
باہیں گلے میں ڈال بھی دو اب خفا نہ ہو

ساقی پلا خدا کے لئے آج رات بھر
اس کی تو کچھ خبر نہیں کل کیا ہو کیا نہ ہو

نوشادؔ وہ جو ناز سے آئیں تو دیکھنا
جس کا قضا ہے نام وہ ان کی ادا نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse