زاہد بھی میری طرح اسی پر فدا نہ ہو
زاہد بھی میری طرح اسی پر فدا نہ ہو
کعبہ کے پردے میں بت کافر چھپا نہ ہو
تقدیر ہے خلاف تمہاری خطا نہیں
بگڑو ہمیں سے اور کسی سے خفا نہ ہو
آمین کہہ رہے ہیں بتان صنم کدہ
مقبول بارگاہ خدا کیوں دعا نہ ہو
بدلا اگر وفا کا جفا ہو جہان میں
او نا شناس قدر وفا پھر وفا نہ ہو
پائے صنم پہ سر ہے تمنا یہ دل میں ہے
میرے سوا قبول کسی کی دعا نہ ہو
الٹیں تو کس کے سامنے الٹیں نقاب رخ
جب کوئی ان کا دیکھنے والا رہا نہ ہو
قاتل یہ آرزو ترے بسمل کے دل میں ہے
خنجر ہلال بن کے گلے سے جدا نہ ہو
باقی رہے نہ حد کوئی تیرے غرور کی
او بے وفا جو حسن ترا بے وفا نہ ہو
سجدہ کریں ہم اس بت کافر کو دیر میں
کچھ بے خودیٔ عشق میں خوف خدا نہ ہو
اپنا خرام ناز عبث دیکھتے ہو تم
دیکھو مرا نشان لحد مٹ گیا نہ ہو
زاہد حرم سے لائے تجھے کون کھینچ کر
گر بت کدہ میں جلوۂ شان خدا نہ ہو
مرنے کے بعد ان کی حیا ہم سے کم ہوئی
وہ کہہ رہے ہیں روٹھنے والے خفا نہ ہو
رنجیدہ ہو کے در سے جو اٹھتا ہوں کہتے ہیں
دنیا میں زندگی سے کوئی یوں خفا نہ ہو
آتے ہو تم جو روز عیادت کے واسطے
مقصود اس سے یہ ہے کہ مجھ کو شفا نہ ہو
ساقیٔ پاک دل ہمیں آتا نہیں مزہ
جب تک شریک دور کوئی پارسا نہ ہو
وہ حکم دے چکے ہیں کہ اب ان کی بزم میں
دنیا کی گفتگو ہو مرا تذکرہ نہ ہو
قدموں پہ سر جھکائے بڑی دیر ہو گئی
باہیں گلے میں ڈال بھی دو اب خفا نہ ہو
ساقی پلا خدا کے لئے آج رات بھر
اس کی تو کچھ خبر نہیں کل کیا ہو کیا نہ ہو
نوشادؔ وہ جو ناز سے آئیں تو دیکھنا
جس کا قضا ہے نام وہ ان کی ادا نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |