رہ گیا پر وہ ترے چاک گریبانوں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہ گیا پر وہ ترے چاک گریبانوں کا
by ریاض خیرآبادی

رہ گیا پر وہ ترے چاک گریبانوں کا
حشر میں کوئی بھی پرساں نہیں دیوانوں کا

راہ چلتے ہوئی ہے دولت دیدار نصیب
اس میں احسان نہیں آپ کے دربانوں کا

یاد آتی ہیں جنوں خیز ہوائیں ان کی
اب نہ وہ ہم ہیں نہ عالم وہ بیابانوں کا

ارے دیوانے ذرا چل کے انہیں دیکھ تو لے
مے کدوں میں ہے مزا شیخ پری خانوں کا

بت خدا ہوں کہ نہ ہوں ہے مگر اتنی توقیر
بت کدہ آج بھی کعبہ ہے مسلمانوں کا

چشم ساقی کی طرح ہے اثر انداز اے شیخ
بعد توبہ کے چھلکنا بھرے پیمانوں کا

چٹکیاں آپ نہ لیں مہندی لگے ہاتھوں سے
کام دیں گے نہ یہ ناخن کبھی پیکانوں کا

قحط جائے بھی مگر یہ نہیں جانے کے ریاضؔ
کہ مرے گھر ہے اجارہ مرے مہمانوں کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse