رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
by مضطر خیرآبادی

رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
دور سے باتیں سنا کر دور کی باتیں نہ کر

بیٹھ کر دنیا میں زاہد حور کی باتیں نہ کر
رہ کے اتنی دور اتنی دور کی باتیں نہ کر

لن ترانی جلوۂ جاناں تری اچھی نہیں
میں کوئی موسیٰ نہیں ہوں طور کی باتیں نہ کر

میری بے ہوشی بڑھی جاتی ہے اس تدبیر سے
چارہ گر تو دیدۂ مخمور کی باتیں نہ کر

اپنا غم مجھ کو پرائے غم سے یاد آنے لگا
ہم نشیں مجھ سے دل رنجور کی باتیں نہ کر

پاس آنے کو جو کہتا ہوں تو مضطرؔ ناز سے
کہتے ہیں چل دور اتنی دور کی باتیں نہ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse