رہ شوق سے اب ہٹا چاہتا ہوں
Appearance
رہ شوق سے اب ہٹا چاہتا ہوں
کشش حسن کی دیکھنا چاہتا ہوں
کوئی دل سا درد آشنا چاہتا ہوں
رہ عشق میں رہنما چاہتا ہوں
تجھی سے تجھے چھیننا چاہتا ہوں
یہ کیا چاہتا ہوں یہ کیا چاہتا ہوں
خطاؤں پہ جو مجھ کو مائل کرے پھر
سزا اور ایسی سزا چاہتا ہوں
وہ مخمور نظریں وہ مدہوش آنکھیں
خراب محبت ہوا چاہتا ہوں
وہ آنکھیں جھکیں وہ کوئی مسکرایا
پیام محبت سنا چاہتا ہوں
تجھے ڈھونڈھتا ہوں تری جستجو ہے
مزا ہے کہ خود گم ہوا چاہتا ہوں
یہ موجوں کی بے تابیاں کون دیکھے
میں ساحل سے اب لوٹنا چاہتا ہوں
کہاں کا کرم اور کیسی عنایت
مجازؔ اب جفا ہی جفا چاہتا ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |