رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
by فانی بدایونی
299777رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائےفانی بدایونی

رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
تیرا تو اے ستمگر ارمان رہ نہ جائے

جو دل کی حسرتیں ہیں سب دل میں ہوں تو بہتر
اس گھر سے کوئی باہر مہمان رہ نہ جائے

اقرار وصل تو ہے ایسا نہ ہو نہ آئیں
مشکل ہماری ہو کر آسان رہ نہ جائے

اے سوز غم جلا دے اے درد خوں رلا دے
کچھ ان کی دل لگی کا سامان رہ نہ جائے

سب منزلیں ہوئیں طے محشر ہے اور اے دل
یہ ایک رہ گیا ہے میدان رہ نہ جائے

وہ جام کفر پرور بھر دے کہ مست کر دے
مستوں کے دل میں ساقی ایمان رہ نہ جائے

آ کر پلٹ نہ خالی اے مرگ جان لے جا
فانیؔ کے سر پہ تیرا احسان رہ نہ جائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse