رہے ہم آشیاں میں بھی تو برق آشیاں ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہے ہم آشیاں میں بھی تو برق آشیاں ہو کر
by ریاض خیرآبادی

رہے ہم آشیاں میں بھی تو برق آشیاں ہو کر
لگا دی آگ اپنے گھر میں سرگرم‌ فغاں ہو کر

نہ اپنے غم زدوں کو خوش کرو اب مہرباں ہو کر
بتو تم خوش رہو ہم کیا کریں گے شادماں ہو کر

کھلے غنچے نہ بو پھوٹی نہ شاخ گل پھلی پھولی
قفس میں جب سے ہم آئے بہار آئی خزاں ہو کر

چلے ہو گل بداماں کچھ تو کہتے جاؤ ان سے بھی
کہ تم سے کہہ رہے ہیں کچھ عنادل ہم زباں ہو کر

جواں ہونے نہ پائے تھے کہ دل آیا حسینوں پر
اجل یہ کہتی آئی کیا کرو گے تم جواں ہو کر

ہوئے پست ایسے ان کی خاک بھی اڑتے نہیں دیکھی
رہے رہنے کو کتنے اس زمیں پر آسماں ہو کر

جو کھل کر وار موسیٰ پر تو ہم پر چوٹ پردے میں
وہی جلوہ عیاں ہو کر وہی جلوہ نہاں ہو کر

قیامت ان کی چھیڑیں ہیں مرے بیتاب کرنے کو
جو ناوک آئے چٹکی سے تو ان کی چٹکیاں ہو کر

ملایا خاک ہو کر حسرتوں کو اپنی مٹی میں
چھپایا کارواں کو ہم نے گرد کارواں ہو کر

کبھی تقریر ساقی میں جو لغزش اس نے پائی ہے
تو موج مے نے ہم سے گفتگو کی ہے زباں ہو کر

یہ رنگیں نعرۂ مستانہ کس کے ہیں ارے زاہد
صدا ناقوس کی دے دی کہیں گونجی اذاں ہو کر

ترے کوچے میں پیسا ہے اسی نے ہم غریبوں کو
گرا ہے سایۂ دیوار ہم پر آسماں ہو کر

کسی محرم سنبھالے گی نہ دہرائے ہوئے آنچل
رہیں گے وہ نہ قابو میں کسی کے بھی جواں ہو کر

دکن میں کیا وزیر فوج نے مہماں نوازی کی
جناب شادؔ کے در سے پھرے ہم شادماں ہو کر

ریاضؔ اس وضع سے پہنچے کہ بولے میکدے والے
بزرگ خضر صورت آئے جنت میں جواں ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse