رہے جو شب کو ہم اس گل کے سات کوٹھے پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہے جو شب کو ہم اس گل کے سات کوٹھے پر
by نظیر اکبر آبادی

رہے جو شب کو ہم اس گل کے سات کوٹھے پر
تو کیا بہار سے گزری ہے رات کوٹھے پر

یہ دھوم دھام رہی صبح تک اہا ہا ہا
کسی کی اتری ہے جیسے برات کوٹھے پر

مکاں جو عیش کا ہاتھ آیا غیر سے خالی
پٹے کے چلنے لگے پھر تو ہات کوٹھے پر

گرایا شور کیا گالیاں دیں دھوم مچی
عجب طرح کی ہوئی واردات کوٹھے پر

لکھیں ہم عیش کی تختی کو کس طرح اے جاں
قلم زمین کے اوپر دوات کوٹھے پر

کمند زلف کی لٹکا کے دل کو لے لیجے
یہ جنس یوں نہیں آنے کی ہات کوٹھے پر

خدا کے واسطے زینے کی راہ بتلاؤ
ہمیں بھی کہنی ہے کچھ تم سے بات کوٹھے پر

لپٹ کے سوئے جو اس گل بدن کے ساتھ نظیرؔ
تمام ہو گئیں حل مشکلات کوٹھے پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse