رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں
by اختر انصاری اکبرآبادی

رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں
کون ہے اپنے ہوش میں ظالم کس کا گریباں چاک نہیں

جب تھا زمانہ دیوانوں کا اب فرزانے آئے ہیں
جب صحرا میں لالہ و گل تھے اب گلشن میں خاک نہیں

فتنوں کی ارزانی سے اب ایک اک تار آلودہ ہے
ہم دیکھیں کس کس کے دامن ایک بھی دامن پاک نہیں

موج تلاطم خیر ہیں ہم ساحل کے قریب آتے ہی نہیں
وقت کی رو میں بہہ جائیں ہم ایسے خس و خاشاک نہیں

درد و کرب سے حشر بپا ہونٹوں پہ تبسم ہے اخترؔ
دل کا عالم کچھ بھی رہے آنکھیں تو مگر نمناک نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse