رہتا ہے ہمیشہ جو مری یار بغل میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہتا ہے ہمیشہ جو مری یار بغل میں
by ہاجر دہلوی

رہتا ہے ہمیشہ جو مری یار بغل میں
جلتے ہیں اسے دیکھ کے اغیار بغل میں

کیا لطف ہو گر عیش کے سامان بہم ہوں
معشوق بھی ہو شوخ طرحدار بغل میں

ہر وقت جو آغوش میں رہتا تھا ہماری
اب اوس کو لیے پھرتے ہیں اغیار بغل میں

کس طرح میں سمجھوں کہ وہ کرتے ہیں محبت
آتے نہیں بھولے سے بھی اک بار بغل میں

مے نوشی کا جب حظ ہے کہ ہو بر لب دریا
ساغر ہو اگر ہاتھ میں تو یار بغل میں

سب مٹ گئی ہاجرؔ شب فرقت کی مصیبت
خوب اس کو دبا کر جو کیا پیار بغل میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse