رہا کرتے ہیں مے خانوں میں ہم پیر مغاں ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہا کرتے ہیں مے خانوں میں ہم پیر مغاں ہو کر
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

رہا کرتے ہیں مے خانوں میں ہم پیر مغاں ہو کر
طبیعت زندہ دل رکھتی ہے پیری میں جواں ہو کر

چھپے تھے قبر میں گردش زدہ کیا شادماں ہو کر
یہاں بھی ساتھ ہے دوران سرکا آسماں ہو کر

ہوا ہے شہرہ داغوں کا نثار گل رخاں ہو کر
اڑی بوئے وفا میری نسیم بوستاں ہو کر

جھکے گی رفتہ رفتہ شاخ نخل قد کماں ہو کر
کھنچے گا طول فرقت کا زہ تیر فغاں ہو کر

مشابہ کر دیا کیوں ضعف نے ان کی نزاکت سے
مجھے خود اپنے اوپر رشک آیا ناتواں ہو کر

گئی رونق بھی چہرے کی حواس و عقل جاتے ہیں
اڑا سب رنگ رخ وحشت میں گرد کارواں ہو کر

زمیں پر سوزش غم سے گرے گا آسماں جل کر
شرار دل چلا سر حلقۂ دور فغاں ہو کر

تصدق ان پہ ہوتا ہوں جو شعلے دل سے اٹھتے ہیں
بسر کرتا ہوں میں پروانۂ شمع فغاں ہو کر

فنا ہو کر کہیں مٹتی ہے یا رب شورش وحشت
فغاں کرتا ہوں میں زنجیر باب لا مکاں ہو کر

خدا سمجھے ہماری آہ سوزاں سے جدائی میں
کہ ساری دل کی طاقت اڑ گئی منہ سے دھواں ہو کر

دل نالاں نے ہم سایوں کو بھی دشمن کیا اپنا
رہا کرتے ہیں ہم بتیس دانتوں میں زباں ہو کر

ہمیشہ سے نظرؔ ہم محو یاد روئے روشن ہیں
چمک اس درد کی رسی سے ہم دل میں نور جاں ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse