رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا
by شاہ مبارک آبرو

رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا
چلی جاتی ہے فرمائش کبھی یہ لا کبھی وہ لا

مجھے ان کہنہ افلاکوں میں رہنا خوش نہیں آتا
بنایا اپنے دل کا ہم نیں اور ہی ایک نو محلا

رہی ہے سر نوا سنمکھ گئی ہے بھول منصوبہ
تری انکھیوں نیں شاید مات کی ہے نرگس شہلا

کیا تھا غیر نیں ہم رنگ ہو کر وصل کا سودا
تمہارا دیکھ مکھ کا آفتاب اس کا تو دل دہلا

کف پا یار کا ہے پھول کی پنکھڑی سے نازک تر
مرا دل نرم تر ہے اس کے ہوتے اس سے مت سہلا

جوابوں میں غزل کے آبروؔ کیوں کہل کرتا ہے
تو اک ادنیٰ توجہ بیچ کہہ لیتا ہے مت کہلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.