رکھو وہ شیوہ نہ مد نظر نظر میں رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رکھو وہ شیوہ نہ مد نظر نظر میں رہے
by قربان علی سالک بیگ

رکھو وہ شیوہ نہ مد نظر نظر میں رہے
کہ جس سے راز محبت بشر بشر میں رہے

چمن جو بن کے ترا رہ گزر گزر میں رہے
تو نخل طور کا جلوہ شجر شجر میں رہے

عزیز تر ہے اگر ہو سرشک میں تاثیر
لطیف تر ہے جو آب گہر گہر میں رہے

ادھر تمام کیا آسماں نے اپنا کام
ادھر پھنسے ہوئے اہل ہنر ہنر میں رہے

وفور غم سے یہ جی میں ہے روئیے اس طرح
نہ دل میں حال نہ خون جگر جگر میں رہے

بری خبر ہو تو اس طرح نامہ بر کہنا
کہ صدق و کذب کا شک بے خبر خبر میں رہے

سمجھ کے عشق کر اے دل کہ کیا نہیں معلوم
جو سوچتے نہیں نفع و ضرر ضرر میں رہے

اٹھاؤ قبر میں بھی لذت خلش تا حشر
خدا کرے کہ خدنگ جگر جگر میں رہے

وفا ہماری ستم آپ کے کچھ ایسے ہوں
کہ مدتوں یہی چرچا بشر بشر میں رہے

شب فراق ملی تیرہ روزگاری میں
سحر گزر گئی اور ہم سحر میں رہے

ہم ان کی بزم میں بیٹھے رہے ولیکن یوں
کہ جیسے رہرو راہ خطر خطر میں رہے

کھچے جو سینے سے نالہ تو چاہیے اے دل
مثال معنی لفظ اثر اثر میں رہے

شب وصال کی یا رب نہ روشنی کم ہو
وہ نور عارض رشک قمر قمر میں رہے

تمیز غم کو دیا تھا فلک نے عیش اتنا
کہ جیسے جلوۂ رنگ شرر شرر میں رہے

ہمارے قتل کو لو نازکی سے پہلے صلاح
ابھی تو خنجر زیب کمر کمر میں رہے

ادائے شرم میں لاکھوں اشارے ہیں سالکؔ
جھکی ہوئی یہ کسی کی نظر نظر میں رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse