رکھتا ہے صدا ہونٹ کو جوں گل کی کلی چپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رکھتا ہے صدا ہونٹ کو جوں گل کی کلی چپ
by نظیر اکبر آبادی

رکھتا ہے صدا ہونٹ کو جوں گل کی کلی چپ
وہ غنچہ دہن آہ یہ سیکھا ہے بھلی چپ

سوتا ہے تو لیتا ہوں میں یوں چوری سے بوسہ
جوں منہ میں کھلا دے کوئی مصری کی ڈلی چپ

منت سے کہا ہم نے تو تم آہ نہ بولے
جب غیر نے کی گدگدی پھر کچھ نہ چلی چپ

پروانے سے عاشق کے تئیں شمع جلا کر
پھر آپ بھی روتی ہے کھڑی بخت جلی چپ

سبزی بھی اگی باغ میں غنچے بھی کھلے آہ
پر اس مری گونگی کے لبوں سے نہ ٹلی چپ

غصے میں رقیب آتا ہے جب بھوت سا بن کر
پڑھتا ہوں میں جب دل میں کھڑا نعت علی چپ

مر جائیں پہ شکوے کی کبھی بات نہ نکلے
یہ ہونٹ وہ ہیں جن میں ازل سے ہے پلی چپ

جس دم یہ خبر جا کے رقیبوں کو ہوئی پھر
بس سنتے ہی سن ہو گئے اور سانس نہ لی چپ

الٹی ہی سمجھ یار کی سنتا ہے نظیرؔ آہ
زنہار نہ کچھ بولیو یاں سب سے بھلی چپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse