رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے
by عشق اورنگ آبادی

رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے
منعم کے بھی گھر آخر دولت یہی ہوتی ہے

سنبل کی پریشانی کب کم تھی کہ پھر تس پر
شبنم جو سرشک اس کے مژگاں میں پروتی ہے

عالی سے میں جا پوچھا کیا واقعہ یاں گزرا
گل چاک گریباں ہے شبنم ہے کہ روتی ہے

دم سرد ہی وہ بھر کر یہ مجھ سے لگا کہنے
ہر صبح گلستاں کی حالت یہی ہوتی ہے

عشقؔ اپنی فنا کا خوف سرکش کے نہیں دل میں
کب شمع یہ ہے روشن جو صبح بھی ہوتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse