رو رہا تھا میں بھری برسات تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رو رہا تھا میں بھری برسات تھی
by ثاقب لکھنوی

رو رہا تھا میں بھری برسات تھی
حال کیا کھلتا اندھیری رات تھی

میرے نالوں سے ہے برہم باغباں
یہ خفا ہونے کی کوئی بات تھی

دن نہیں دیکھا سوائے شام ہجر
زندگی بھر میں یہی اک رات تھی

نالہ و آہ و فغاں سے بڑھ گئی
ورنہ الفت اک ذرا سی بات تھی

حشر تک لایا جہاں سے درد دل
کس کو دیتا کیا کوئی سوغات تھی

بند کیں آنکھیں کہ دیکھوں خواب صبح
کھول کر جب آنکھ دیکھا رات تھی

اے صبا غنچوں نے ہنس کر کیا کہا
ان کا قصہ تھا کہ میری بات تھی

اللہ اللہ وحدت شام فراق
ایک میری ایک اس کی ذات تھی

آپ ہی گن دیں مصائب ہجر کے
یوں تو کہنے کے لئے اک رات تھی

ہچکیوں سے راز الفت کھل گیا
آ گئی منہ پر جو دل میں بات تھی

شمع مرقد تجھ سے شکوہ ہے مجھے
میرے گھر میں بھی اندھیری رات تھی

کچھ نہ کچھ ثاقبؔ نے پیدا کر لیا
یہ زمیں تو دشمن ابیات تھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse