روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
by ریاض خیرآبادی

روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
پیارا ہے دل تو ناز بھی دل کے اٹھائے زلف

در گزرے دل کی یاد سے ہم جان تو بچی
پیچھے پڑی ہے جان کے اب کیوں بلائے زلف

وہ کیوں بتائے ہم کو دل گم شدہ کا حال
پوچھیں جناب خضر تو رستہ بتائے زلف

بکھرائے بال دیکھ لیا کس کو بام پر
ہر وقت ہائے زلف ہے ہر لحظہ ہائے زلف

کس طرح ان حسینوں کے بھرتی رہی ہے کان
پہنچے نہ تیرے کان میں اے دل صداۓ زلف

بل کھا کے دوش ناز سے گرنا ادھر ادھر
وہ زلف اور ہائے وہ کافر ادائے زلف

لے کر بلائیں خود وہ کشاکش میں پڑ گیا
دل زلف کو ستائے نہ دل کو ستائے زلف

پھندے میں اس کے طائر دل آ رہے گا آپ
مرغ نظر کو دام میں پہلے پھنسائے زلف

پینگائے اور یہ جوبنوں کا رہنمائے دل
صد سالہ زاہدوں کو تو برسوں جھلائے زلف

آشفتگان زلف کا برہم ہے کیوں مزاج
کہتا ہے کون کوئی نہ ہو مبتلائے زلف

سائے سے اس کے بھاگتے ہیں لوگ دور دور
بگڑی ہوئی ہے آج کل ایسی ہوائے زلف

تم نام ان کی زلف کو رکھتے ہو کیوں ریاضؔ
سن لے تو ایک ایک کی سو سو سنائے زلف

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse