رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے
by عشق اورنگ آبادی

رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے
نالہ میں آہ رعد سا شور ہے اور خروش ہے

رعد نے شور سے پکار مستوں کو یہ نوید دی
تم ہو کدھر اے مے کشو موسم ناے و نوش ہے

چاک کروں ہوں جیب صبر طالع عندلیب دیکھ
سننے کو اس کا درد دل گل ہی بہ شکل گوش ہے

کن نے چمن میں مے کشی کی ہے صبا تو سچ کہو
جام ہے گل کے ہاتھ میں غنچہ سبو بہ دوش ہے

کون دوانہ مر گیا اس کے عزا میں اب تلک
اس کے لباس سر بہ سر چشم سیاہ پوش ہے

نالہ ہے خانہ زاد عشق لیک کہاں سر و دماغ
اپنے تو قافلے کے بیچ جو ہے جرس خموش ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse