رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
by آغا شاعر قزلباش

رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آنسو بہائے چار طبیعت سنبھل گئی

میں نے ترس ترس کے گزاری ہے ساری عمر
میری نہ ہوگی جان جو حسرت نکل گئی

بے چین ہوں میں جب سے نہیں دل لگی کہیں
وہ درد کیا گیا کہ مرے دل کی کل گئی

کہتا ہے چارہ گر کہ نہ پائے گا اندمال
اچھا ہوا کہ زخم کی صورت بدل گئی

اے شمع ہم سے سوز محبت کے ضبط سیکھ
کم بخت ایک رات میں ساری پگھل گئی

شاخ نہال عمر ہماری نہ پھل سکی
یہ تو ہے وہ کلی جو نکلتے ہی جل گئی

دیکھا جو اس نے پیار سے اغیار کی طرف
شاعرؔ قسم خدا کی مری جان جل گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse