رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
by مرزا غالب

رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے

صرف بہائے مے ہوئے آلات مے کشی
تھے یہ ہی دو حساب سو یوں پاک ہو گئے

رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے

کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse