رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
by افسر میرٹھی

رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے

لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے

لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے

اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں
اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے

پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے
دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے

اب کے ہم راہ گزاریں گے جنوں کا موسم
دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے

اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم
پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے

ہائے کیا چیز ہے کیفیت سوز الفت
کوئی پوچھے یہ ترے سوختہ سامانوں سے

پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر
پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے

خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں
کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے

غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسرؔ
زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse