رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی  (1900) 
by حبیب موسوی

رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی
جان جہاں عشاق تمہارے شمع بھی ہیں پروانہ بھی

ساری عمر میں جو گزری تھی ہم پر وہ روداد لکھی
پر ہوئی یوں مشہور کہ جیسا ہو نہ کوئی افسانہ بھی

عشق سبھی کرتے ہیں مگر جو حالت مجھ پر طاری ہے
منہ سے کہوں گر ہاتھ ملے گا اپنا بھی بیگانہ بھی

پوچھتے کیا ہو میرا ٹھکانا ایک جگہ گر ہو تو کہوں
راہ گزر ہے یار کا در ہے مسجد بھی مے خانہ بھی

راہ طلب میں چلتے پھرتے لاکھوں آتے جاتے ہیں
خلق میں ہے عشاق کی منزل کعبہ بھی بت خانہ بھی

مجھ پر وہ بے طور خفا ہیں غیروں کے بہکانے سے
ملنا کیسا بات کہاں کی بند ہے آنا جانا بھی

ایک ہمیں کیا پیچ میں ہیں اس زلف دوتا کی الفت سے
مار سیہ ہم رنگ ہے اپنا سنبل تر بھی شانہ بھی

کر دی صحبت درہم و برہم کس کی چشم کے افسوں نے
بہکا ساقی ڈھلکی بوتل اور چھلکا پیمانہ بھی

واعظ کے منہ پر نہ کہو کچھ شرع کی حرمت لازم ہے
رندی میں مشروط نہیں ہیں باتیں آزادانہ بھی

خنجر ابرو تیغ نگہ تقریر مسلسل چشم سیاہ
تیز بھی ہے خوں ریز بھی دل آویز بھی ہے مستانہ بھی

کوچہ میں اس کے جمع ہیں عاشق بھیڑ لگی ہے کوسوں تک
شور بھی ہے ہنگامہ بھی ہے شانے سے چھلتا شانہ بھی

خلوت دل میں چین سے بیٹھو کس سے تکلف کرتے ہو
گھر ہے تمہارا تم ہو یہاں مہمان بھی صاحب خانہ بھی

نام حبیبؔ مضطر کا معلوم نہیں سب کہتے ہیں
درد رسیدہ آفت دیدہ وحشی بھی دیوانہ بھی


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.