روش سادہ بیانی میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روش سادہ بیانی میری
by اسماعیل میرٹھی

روش سادہ بیانی میری
ہے یہ تیغ صفہانی میری

نا شناسا کو نہ آئے باور
داستاں اس کی زبانی میری

میری ہستی ہے ممیز بہ عدم
بے نشانی ہے نشانی میری

رخنہ گر ہے مری آزادی میں
ہوس بال فشانی میری

سبق جہل کی تکرار پہ اب
منحصر ہے ہمہ دانی میری

دوستی وضع تن آسانی کی
بن گئی دشمن جانی میری

خاتمہ ہے مری تمہید میں درج
ہے دل آویز کہانی میری

زیرکی دام فریب دل ہے
ہے تحیر نگرانی میری

دل ہو ساقی لب دریا ساغر
سہل ہے پیاس بجھانی میری

صبح طفلی ہے بڑھاپا میرا
شام پیری تھی جوانی میری

ایک چکر ہے بشکل گرداب
بند برپا ہے روانی میری

وجہ باقی مرے معنی کو سمجھ
صورت البتہ ہے فانی میری

بزم کثرت کا تماشائی ہوں
وحدت صرف ہے بانی میری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse