روش سادہ بیانی میری
Appearance
روش سادہ بیانی میری
ہے یہ تیغ صفہانی میری
نا شناسا کو نہ آئے باور
داستاں اس کی زبانی میری
میری ہستی ہے ممیز بہ عدم
بے نشانی ہے نشانی میری
رخنہ گر ہے مری آزادی میں
ہوس بال فشانی میری
سبق جہل کی تکرار پہ اب
منحصر ہے ہمہ دانی میری
دوستی وضع تن آسانی کی
بن گئی دشمن جانی میری
خاتمہ ہے مری تمہید میں درج
ہے دل آویز کہانی میری
زیرکی دام فریب دل ہے
ہے تحیر نگرانی میری
دل ہو ساقی لب دریا ساغر
سہل ہے پیاس بجھانی میری
صبح طفلی ہے بڑھاپا میرا
شام پیری تھی جوانی میری
ایک چکر ہے بشکل گرداب
بند برپا ہے روانی میری
وجہ باقی مرے معنی کو سمجھ
صورت البتہ ہے فانی میری
بزم کثرت کا تماشائی ہوں
وحدت صرف ہے بانی میری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |