روشن ہزار چند ہیں شمس و قمر سے آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روشن ہزار چند ہیں شمس و قمر سے آپ
by امداد علی بحر

روشن ہزار چند ہیں شمس و قمر سے آپ
غائب ہیں پر نگاہ کی صورت نظر سے آپ

آنکھیں بچھاتے پھرتے ہیں مشتاق راہ میں
کیا جانیے گزرتے ہیں کس رہ گزر سے آپ

روئے کوئی غریب تو ہنسنا نہ چاہئے
واقف نہیں کسی کے فغان اثر سے آپ

کانٹے بھرے ہیں خط میں جو چھوتے نہیں اسے
اتنا نہ ہاتھ کھینچیے میری خبر سے آپ

رہ گیر کیوں تڑپتے ہیں تشویش تھی مجھے
اب کھل گیا کہ جھانکتے ہیں چاک در سے آپ

حمام نے تو اور بھی چمکا دیا بدن
گویا نہا کے نکلے ہیں آب گہر سے آپ

لائیں گے راہ پر یہ رخ و زلف ایک دن
دیکھیں گے شام تک مرا رستہ سحر سے آپ

آنکھوں کی طرح رونے لگیں روزن مکاں
پوچھیں ہمارا حال جو دیوار و در سے آپ

مریخ پن مزاج میں اعضا میں نازکی
تیغ شعاع باندھئے اپنی کمر سے آپ

اے زاہدان خشک یہ غیرت کا ہے مقام
آگاہ آج تک نہیں خالق کے گھر سے آپ

ظاہر ہے مرغ قبلہ نما بھی گواہ ہے
کعبے کی سمت پوچھتے ہیں جانور سے آپ

کیوں کر ملک کہوں کہ ملک خادم آپ کے
ہیں وہ بشر کہ ملتی ہیں خیر البشر سے آپ

جو بات آپ کی ہے مشیت خدا کی ہے
بے شبہ مختلط ہیں قضا و قدر سے آپ

پھسلا ہے میرے آنسوؤں میں پاؤں آپ کا
بندے کا سر اتارئیے آج اپنے سر سے آپ

اے بحرؔ رحم کھائے گا وہ رونے پر ضرور
دھو رکھئے اپنے منہ کو ذرا چشم تر سے آپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse