روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا
by مرزا سلامت علی دبیر

روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا
دل صر صر فنا سے بجھا اہل شام کا
اندھیر کچھ گھٹا فلک نیلی فام کا
تلنے لگا سفید و سیہ صبح و شام کا
گل شمع فتح کا صفت غنچہ کھل گیا
مختار کو جہاد کا پرونہ مل گیا

ہمت پکاری ظالموں کے قلب چاک کر
بو جہل سیرتوں کو خراب و ہلاک کر
اصحاب بو تراب کا دل غم اسے پاک کر
احباب بو لہب کو جلا کر تو خاک کر
عنتر کے ہمسروں کا جدا تن سے فرق کر
مرحب کی قوم کوچۂ ہب ہب میں غرب کر

ہاں گلشن قصاص کو خنجر سے آب دے
ہاں تیر کی زباں سے عدو کو جواب دے
ہاں اتقیا کو مژدۂ اجرو ثواب دے
ہاں اشقیا کو وعدۂ قہر و جواب دے
سر سبز برق نیزہ سے تخم مراد کر
روشن نسیم تیغ سے شمع جہاد کر

ہمت کا درس تجھ کو سکندر سے چاہئے
جرأت کا اخذ مالک اشتر سے چاہئے
خدمت کا بادہ کاسۂ قنبر سے چاہئے
نقد خلوص کیسہ بوذر سے چاہئے
اسلام میں برابر سلماؓ ںمکیں ہو تو
اخلاص میں اویس قرن کے قریں ہو تو

یوں خضر حکم حق جو ہوا اس کا رہنما
لبیک کی سکندر طالع نے دی ندا
سکہ پڑا سفید و سیہ پر جدا جدا
چاندی دکھائی چاند نے خورشید نے طلا
بولا قرار کون و مکاں میں بھلا کرے
وہ کیجئے کہ کون و مکاں حق عطا کرے

اور چتر سر بنے پر وبال ہمائے فتح
کی زیب تن قضا و قدر نے قبائے فتح
روح القدس نے چہرے پہ دم کی دعائے فتح
شوکت نے غرب و شرق میں کھولا لوائے فتح
یاں تک دراز آرزوئے جنگ ہوگئی
تن پر قبائے ہفت فلک تنگ ہوگئی

دکھلایا آفتاب نے آئینہ با ادب
چار آئینہ بھی اپنا جری نے کیا طلب
دکھلا کے چار چار پہر اپنے روز و شب
بولا یہ پیش کش ہو ہماری قبول اب
اک دن کا چار آئینہ ہے ایک رات کا
حافظ خدا ہے آٹھ پہر تیری ذات کا

آہن کا خود مرتبہ پارس کا کیوں نہ پائے
یہ پیرو حسینؑ جسے اپنے سر چڑھائے
درجے سر بلند نے یہ خود کے بڑھائے
مضمون جس کے پیر فلک کے نہ ہاتھ آئے
نازاں ہوا یہ خود سر بے عدیل پر
پھینکی کلاہ فتح نے عرش جلیل پر

زیب کمر وہ تیغ ظفر کی پئے مصاف
جو سرکشان دہر کے سر پر تھی موشگاف
باندھی جری نے وہ سپر آسماں غلاف
سورج گہن میں آئے جو ہواس سے بر خلاف
ترکش میں چیدہ چیدہ خدنگ اس نے بھر لئے
عقرب پئے اقارب شمر و عمر لیے

وہ دونوں رخ تھے یا کہ پئے نذر شیر حق
شمس و قمر لیے تھے زر وسیم کے طبق
لب کہ وہ جن کے رنگ سے گل ہو عرق عرق
اور کلیات غنچہ پریشاں ورق ورق
کیا خط و عارض و لب و گیسو سے کام تھا
مختار چین و روم و سمرقند و شام تھا

اور نطق طوطی شکرستان ذکر حق
یا دفتر مناقب حیدرؑ کا اک ورق
تھی وہ زبان بلبل سدرہ سے ہم سبق
کہتا تھا اس زباں سے وہ صادق جو حرف حق
وصف علیؑ و آل نبیؐ برزبان ماست
گویا زباں برائے ہمیں دردہان ماست

ہمدست لاکھ رستم دستاں ہوں اس سے کب
ہاتھ اس کا تھا وہ ہاتھ کہ جس نے بحکم رب
کی بیعت امام زبردستوں سے طلب
جو دست بیع اس سے ہوا درجے پائے سب
چوما قدم تو خلد کے آٹھوں چمن ملے
پہنچا جو ہاتھ پنجے تلک پنچتن ملے

وہ دونوں ہاتھ تھے الف انتقام کے
وہ دو الف شریک ازل سے امام کے
ہنگام جنگ تیغ و سپر تھام تھام کے
اعدا سے لیں قصاص شہ تشنہ کام کے
بے ان کے داد خواہ کبھی معترف نہ ہوں
انصاف نصف ہووے جو یہ دو الف نہ ہوں

رگ رگ میں ریشے ریشے میں تھا جوہر وفا
پیدا ہوا تو مادر مختار نے سنا
ہاتف نے دی ندا میں پسر پر ترے فدا
اک دن قصاص لے گا یہ بے کس حسینؑ کا
یہ شیفتہ ہے فاطمہؑ کے نور عین پر
واجب شفاعت اس کی ہے روح حسینؑ پر

حقا کہ جز فضائل مختار خوش خصال
گر ہے کوئی حدیث تقیے پہ ہے وہ دال
جب رن میں باغ فاطمہؑ ہوتا تھا پائمال
روکر حسینؑ کہتے تھے ا ئےرب ذوالجلال
باغی تباہ کرتے ہیں گلزار کو مرے
مختار کر قصاص کا مختار کو مرے

سجاد سے یہ چند حدیثوں میں ہے خبر
محسن ہے اہل بیت کامختار نامور
کیا ہم کو اختیار تھا جب مرگئے پدر
پوشاک ماتم اس نے بدلوائی سر بسر
لازم ہے دوستان حسینؑ شہید کو
تحسین اسے کیا کریں نفریں یزید کو

کونے میں جب کہ آئے تھے مسلم نکو سیر
بیعت سے ان کی پہلے ہوا تھا یہ بہرہ ور
ٹھہرا کے یہ قصور بس اس بے قصور پر
خواہان جان و مال تھا مرجانہ کا پسر
آہوئے کعبہ رن میں جب امت کا صید تھا
مختار قید خانے میں کونے کے قید تھا

واں رن میں سر حسینوں کے ہوتے تھے قلم
زنداں کے در پہ سر پہ پٹکتا تھا دم بدم
دیتا تھا کربلا کو ندا وہ اسیر غم
افسوس اے حسینؑ نہیں اپنے بس میں ہم
کھیتی لٹی بتولؑ کی دشت جہاد میں
سادات آئے مجلس ابن زیاد میں

ابن زیاد بولا کہ مختارؑ کو بلاؤ
سیدانیوں کے ہاتھ بندھے اس کو بھی دکھاؤ
لائے تو پوچھا بیوؤں کو کیادوں سزا بتاؤ
لو تم بڑے محب ہو انہیں قید سے چھڑاؤ
ہیں سر برہنہ فکر لباس و ردا کرو
مومن تو ہو حمایت آل عبا کرو

مشکیں بندھی تھیں رو کے دلاور نے یہ کہا
بدلا نہ اس کا لوں تو جبھی کہیو تو بھلا
کہتے ہیں اس گھڑی سے وہ رویا کیا سدا
زنداں سے بھی چھٹا تو اسیر الم رہا
ہر روزیہ دعا تھی کہ روز جہاد ہو
طالع خدا کے مہر سے صبح مراد ہو

مقبول کی خدا نے یہ دیندار کی دعا
یعنی یزید نحس نے کی شام میں قضا
عازم قصاص کا ہوا مختار باوفا
عابد کے آستانے پہ آیا پئے رضا
در پر سنا کہ بیبیوں میں شورو شین ہے
عاشور سے زیادہ عزائے حسینؑ ہے

زینبؑ کی آرہی ہے یہ آواز وا اخا
بانوؑ پکارتی ہے کہ اکبرؑ کدھر گیا
بیمار ایک لڑکی یہ کہتی ہے برملا
ہے ہے نہ میرے درد کی اب تک ملی دوا
بھولے بہن کو اکبرؑ عالی خصال بھی
بابا نہ کربلا سے پھرے اب کے سال بھی

القصہ سن کے آمد مختار کی خبر
در پر امام آئے حرم سب قریب در
مختار نے قدم پہ جھکایا ادب سے سر
دل میں جو آرزو تھی کہی ہاتھ باندھ کر
فرمایا مسکرا کے شہ بے نظیر نے
ہم کو خبر یہ دی ہے جناب امیرؑ نے

پھر پشت سے لباس مبارک اٹھا کے ہائے
مولا نے تازیانوں کے اس کو نشان دکھائے
زینبؑ پکاریں بھائی اگر شمر ہاتھ آئے
سر اس کا کاٹ لیجیو جیتا نہ جانے پائے
بولی سکینہؑ سب سے وہ ظالم زیاد ہے
اس کا طمانچہ آج تلک مجھ کو یاد ہے

اس نے کہا بفضل خدا ہوئے گا یونہیں
سنیو کہ غرق خوں ہوئی کوفے کی سب زمیں
سجاد سے ودا ع ہوا پھر وہ اہل دیں
آئی ندا بقیع سے مختار آفریں
اب تک وہی ہے جوش مرے شور و شین کا
ہاں انتقام لے مرے بے کس حسینؑ کا

عابدؑ نے اک غلام سے اپنے کیا خطاب
کہتے تھے اس کو فارس ہیجا ابوتراب
لے جا مرا فرس وہ دے آیا اسے شتاب
غازی چڑھا جو اس پہ ہوئی فتح ہم رکاب
بیمار کربلا کا وہ رخش صبیح تھا
صحت کے ساتھ چلنے میں نبض مسیح تھا

اس تیز رو کو کاہ سے تھی نفرت دلی
یعنی کہ لفظ کاہ میں ہے حرف کاہلی
گردش سے چرخ راہ کی جس دم عناں ہلی
حقا ہوائے خلد اسے کھانے کو ملی
پریاد ذوالجناح میں اندوہناک تھا
جیب ہلال نعل اسی غم سے چاک تھا

رفتار گرم سے دل سیماب پارہ تھا
ہر قطرۂ عرق سے یہ حسن آشکارا تھا
طوفان پر جہاز ہوا پر ستارہ تھا
بادل پہ برق آب رواں پر شرارہ تھا
آندھی کی طرح آتا تھا وہ رزمگاہ میں
لیکن چراغ نعل کے روشن تھے راہ میں

دل سے میان راہ پہ مختار نے کہا
لے نائب حسینؑ سے تو جنگ کی رضا
اب چل پئے زیارت مظلوم کربلا
تو گو کہ با وفا ہے پہ ہے عمر بے وفا
لازم زیارت پسر بوترابؑ ہے
ہر ہر قدم پہ عمرۂ و حج کا ثواب ہے

لکھتا ہے کربلا میں جو آیا وہ باوفا
پڑھنے لگا زیارت قبر شہ ہدا
بولا لپٹ کے قبر سے روحی لک الفدا
اے تشنۂ سقیفہ و صحرائے کربلا
اے فخر صد ذبیح و صد ایوب السلام
محبوب ذوالجلال کے محبوب السلام

کچھ اپنے سوگواروں کی تم کو خبر ہے آہ
زینب تری بہن کفنی پہنے ہے سیاہ
روتی ہے شام سے ترے حجرے پہ تاپگاہ
اوروں کا قبر فاطمہؑ پر حال ہے تباہ
ہمشکل مصطفی سے یہ کہہ دو مزار میں
صغراؑ کھڑی ہے در پہ ترے انتظار میں

تقدیر میں سکینہؑ نے ماتم جو پایا ہے
چھوٹا سا ایک تعزیہ خانہ بنایا ہے
عباسؑ کا علم سر منبر لگایا ہے
عابدؑ سے رو کے کہتی ہے غم دل پہ چھایا ہے
بھائی بہن حقوق شہ دیں ادا کریں
تم مرثیہ پدر کا پڑھو ہم بکا کریں

بہلانے اس کو آتی ہیں ہمجولیاں اگر
کہتی ہے اب نہ کھیلوں گی میں تم میں بیٹھ کر
تم سب ہو باپ والی میں دکھیا ہوں بے پدر
ماتم ہے کربلا کے شہیدوں کا میرے گھر
اماں ہماری بیوہ ہوئیں بابا مرگئے
رونے کے دن میں کھیلنے کے دن گزر گئے

سمجھانے کو سکینہؑ کے اب آپ جائیے
صغراؑ کو خواب میں رخ اکبرؑ دکھائے
کبراؑ ہے بے قرار گلے سے لگائیے
روتی ہے ماں کی قبر پہ زینبؑ اٹھائیے
عابدؑ کی لو خبر کہ بہت ناتوان ہے
بالائے پشت نیزوں کا اب تک نشان ہے

کانپا ہر ایک نام پہ شبیرؑ کا مزار
اس نے حضور قبر دھری تیغ آبدار
اور عرض کی کہ اے پسر شاہ ذوالفقار
بندھوائیں آپ تیغ تو ہوئے کشود کار
اذن جہاد مانگتا ہوں کس امید سے
اس لب سے حکم دو جو کھلا چوب بید سے

یہ کہتے کہتے ہو گیا بے ہوش وہ سعید
پر عین غش میں دیدۂ باطن کی تھی یہ دید
روضہ میں برج قبر سے نکلا ہلال عید
اور یا حسینؑ کہہ کے اٹھے قبروں سے شہید
ہاتھوں پہ سر کٹے شہدا تھے لیے ہوئے
زہراؑ جلو میں بال پریشاں کئے ہوئے

ہے پیش پیش فوج خدا حر نامور
باندھے ہوئے بتولؑ کا رومال حق پر
سردار کے قریب علمدار خوش سیر
اصغرؑ کی لاش گود میں شہ کی لہو میں تر
بولا کہ سہل عقدۂ دشوار ہیں مرے
اتنے خدا کے شیر مددگار ہیں مرے

مختار کو حسینؑ نے اس وقت دی ندا
نانا سلام کہتے ہیں اماں تجھے دعا
مظلوم کے قصاص کا خواہاں ہے مرحبا
دنیا میں فتح حشر میں فردوس دے خدا
تحقیق کرکے ناریوں کو نار دیجیو
حیدرؑ کے دوستوں کو نہ آزار دیجیو

پھر شاہ نے خطاب یہ عباسؑ سے کیا
ہاں میرے شیر تو اسے شمشیر کر عطا
سیف خدا نے تیغ اسے دے کے یہ کہا
سقائے فوج ہم ترے ہوں گے دم وغا
لے تیغ باندھ ہو تجھے ملک و عمل نصیب
قبضہ تجھے نصیب اور اعدا کو پھل نصیب

آنکھیں کھلیں کریموں کے لطف عمیم سے
کھلتے ہیں جیسے صبح کو غنچے نسیم سے
رخصت ہوا مزار امام کریم سے
گویا مقام طور کا چھوٹا کلیم سے
یوں تیز رو تھا منزل مقصد کی راہ میں
جس طرح ذوالفقار علیؑ حرب گاہ میں

کوفے میں پھر کے کوچہ بہ کوچہ یہ دی صدا
یاروں کوئی شہید ہے بے کس حسینؑ سا
جس کی نہ کچھ دیت نہ قصاص اور خوں بہا
اک تن سے خون پنجتن پاک کا بہا
ایسا بھی ملتوی کوئی دعویٰ رہا نہیں
سید کا خوں بہا ہے مگر خوں بہا نہیں

ابن ابو تراب کی الفت ہے تم کو خاک
خاک عزا سے گیسوئے زینب کئے نہ پاک
یثرب میں جا کے دیکھو لباس حرم ہے چاک
اور کربلا میں حوروں کی ہے آہ دردناک
فوج حسینؑ کا ہوا جنگل میں خاتمہ
زینبؑ وطن میں روتی ہے مقتل میں فاطمہؑ

سن آیا کربلا میں فرشتوں کی میں فغاں
ستر ہزار واں مع فطرس ہیں نوحہ خواں
دیکھ آیا غش میں فوج خدا کی شکوہ و شاں
رنگیں کفن گلوں میں جراحت سے خوں رواں
اذن جہاد مانگا جو رو کر غلام نے
عباسؑ نے تو سیف رضادی امام

ہاں طالبان خون حسینؑ آؤ جلد آؤ
مانند تیغ جوہر مردانگی دکھاؤ
حق تم کو آزماتا ہے تم دل کو آزماؤ
سردو تو کربلا کے شہیدوں کا رتبہ پاؤ
جس کا عقیدہ پاک ہے وہ کامیاب ہے
اب بھی وہی جہاد کا اجر و ثواب ہے

یہ خلہ ہے یہ میوہ یہ کوثر ہے یہ جناں
یہ حور یہ قصور یہ طوبیٰ یہ بوستاں
یہ جنس آبرو ہے یہ بیعانہ نقد جاں
یہ گویا رزمگاں یہ چوگاں یہ امتحاں
یہ سر ہے یہ بدن یہ کفن ہے یہ تیغ ہے
شیر خدا کے شیروں کو پھر کیا دریغ ہے

یہ سن کے تازہ دم ہوئے حیدرؑ کے د وست دار
مردے ہوں جیسے قم قم عیسی سے ہوشیار
کافور ہفت عضو پہ مل مل کے ایک بار
نکلے پہن پہن کے کفن بہر کارزار
کوچوں میں یہ ہجوم خلائق کا حال تھا
سائے کو ساتھ لے کے گزرنا محال تھا

بہر جہاد پیروں نے فورا کیا خضاب
اہل شباب سمجھے خزاں موسم شباب
کنگنا کسی نے کھول کے باندھی کمر شتاب
مشاطہ کو کسی نے دیا بیاہ کا جواب
کہتے تھے فکر عقد نہ خواہش دلہن کی ہے
شادی قصاص خون شہ بے وطن کی ہے

زہراؑ کی لونڈیوں کے عقیدوں کو دیکھنا
بچوں کو لا کے جھولے سےمردوں کو دے دیا
پوچھا جو وارثوں نے تو رو رو کے یہ کہا
دعویٰ انہیں بھی ہے علی اصغرؑ کے خون کا
ظلم و جفائے لشکر بے پیر یاد ہے
اصغرؑ کا حلق یاد ہے اور تیر یاد ہے

سب نقش دل سے حیدریوں نے مٹادیئے
بیٹوں کو اپنے خلعت عقبیٰ پنہا دیئے
نوشاہوں کو سلاح عروسوں نے لادیئے
اور مہر بخش کر یہ سخن بھی سنادیئے
ظلم عدو یہ لکھ لو دل پاش پاش پر
اک شب کی بیاہی روئی تھی دولہا کی لاش پر

فوجوں سے اس قدر ہوئی معمور حرب گہہ
باقی رہی علم کے کھڑے ہونے کی جگہ
ترتیب میمنہ ہوئی ترکیب میسرہ
قلب و جناح سے ہوئی آراستہ سپہ
کوفہ سلاح پوشوں سے آباد ہوگیا
تختہ زمیں کا بیضۂ فولاد ہوگیا

کیا دوستان شاہ نجف کی کروں ثنا
نازاں تھی جن کے حسن عقیدت پہ خود ولا
لشکر میں چار حافظ قرآں جدا جدا
پڑھتے تھے چار سمت فصاحت سے ہل اتیٰ
جبریل واں فلک پہ خضرؑ یاں زمین پر
دم کرتے ہیں دعائیں سبھوں کی جبین پر

ہاں مومنو یہ فوج ہی فوج امام ہے
مد نگہ نظارۂ ہر خاص و عام ہے
ہشیار جبرئیل کا یاں اہتمام ہے
جاسوس عقل و فکر و تصور کا کام ہے
یوں محو ہو کے سیر کرو ان کے اوج کی
آنکھوں میں مثل سرمہ پڑے گرد فوج کی

پیر و جواں کھڑے ہیں برابر چہل ہزار
تیر و کماں کی طرح مہیائے کارزار
کہتی ہے روح فاطمہؑ حسرت سے بار بار
ہے ہے نہ کربلا میں ہوئے یہ رفیق و یار
جب رن کے قصد تھا خلف بوتراب کو
جنت سے آ کے تھاما تھا میں نے رکاب کو

مختار کے غلام میں دو صاحب ہنر
اک فتح ایک خیر نہیں جن کے دل میں شر
جب ہو غلام فتح تو کیونکر نہ ہو ظفر
پیدا ہے فتح طالع مختار نامور
اک دیکھتا ہے ایک کے رخ کو سپاہ میں
مصحف کو ختم کرتے ہیں سب اک نگاہ میں

نازل یزیدیوں پہ جو حق کا غضب ہوا
اجماع دوستان امیر عرب ہوا
ماتم حسینوں کا عدالت طلب ہوا
مختار نامور کو یہ الہام رب ہوا
ہاں بند راہ فتنے کی تیغ رواں سے کر
ہاں فتح باب فتح کلید سناں سے کر

لہرا رہا ہے غازیوں کے سر پہ وہ علم
دامن پہ جس کے نام علیؑ ولی رقم
پھر یہ علم ہے دست علمدار میں علم
یا بہر استغاثہ اٹھا نالۂ حرم
پنجے سے اس کے چہرۂ خورشید زرد ہے
زنیت کا مد آہ ہے رتبے میں فرد ہے

چہرے پہ نوجوانوں کے پیدا خط شباب
اک نقطہ ان کے خال کا ہے حسن کی کتاب
دیکھیں جو آئینے میں خط رخ کی آب و تاب
جوہر خط شعاع ہو آئینہ آفتاب
رخ پر عرق کو دیکھ کے حیرت بڑی ہوئی
ہے دن کو آفتاب پہ شبنم پڑی ہوئی

رخ پر ہیں قطرہ ہائے عرق در آبدار
یا ایک برگ گل کے نگہبان ہیں ہزار
خورشید پر ستارے ہیں غلطیدہ بے شمار
یا ماہتاب کے ہیں جگر گوشے آشکار
جس دم ڈھلیں یہ عارض پر آب و تاب سے
سیارے ہوں فلک پہ ثوابت حجاب سے

آنکھوں سے آشکار ہےعلم و حیا تمام
خورشید و ماہ آنکھ چراتے ہیں صبح و شام
کیا میم مردمک کی ضیا میں کروں کلام
شمس و قمر کے دل میں ہے اس میم کا مقام
چشم سیہ کا وصف ہے باہر حساب سے
آنکھوں میں چھپتا پھرتا ہے سرمہ حجاب سے

پیشانیوں کا ان کی کہوں کیا جلال و جاہ
تاریک شب میں بھی اگر ان پر کو نگاہ
پڑھ لو نماز صبح فضیلت کے وقت واہ
خال جبیں سفیدے کی جا صبح کا گواہ
ابرو سے تیس شب ہے نظارہ ہلال کا
حد حساب ایک ہے یاں ماہ و سال کا

مکتوب حسن گردن انور بہ تاب و آب
اک مد ہلال اس کا ہے اک فرد آفتاب
گوہر طرف پڑا ہے شب زلف کا حجاب
لیکن عیاں ہے مطلع گردن کی آب و تاب
گردن کا نور گیسووں سے آشکار ہے
خورشید نکلا پردۂ شب تار تار ہے

رخ گلشن بہشت ہے غیرت دہ ارم
نہر اس میں شیر و شہد کی دندان و لب بہم
ہے خط رخ و ہ خوب کہ لکھیں ثنا جو ہم
اصلاح سے بری ہو یہ سب نظم یک قلم
کیونکر کوئی نوشتۂ حق کو غلط کہے
جس کو سواد خط نہ ہو وہ اس کو خط کہے

بینی کا کیا قلمر و رخ پر ہے عز و جاہ
زیر قلم ہے حسن کا کشورازل سے آہ
چہرے کو چاند کہتے ہیں سب صاحب نگاہ
بینی ہے بیچ میں کہ الف درمیان ماہ
بینی کے وصف لکھنے کی کیوں آرزو نہ ہو
بے اس الف کے لاکھ لکھو آبرو نہ ہو

وصف دہان تنگ میں عالم کشادہ لب
اک نقطے میں زمانے کا مضموں بھرا ہے سب
انگشت حیف ہے تہ دنداں کہ ہے غضب
وہ کربلا میں خشکی حلق شہ عرب
مرنے پہ منہ کھلا تھا شہ مشرقین کا
نیزے سے کٹ گیا لب بالا حسینؑ کا

دنداں ذرا بھی وقت تبسم جو ہوں عیاں
مثل صدف کہر سے ہو لبریز آسماں
شکر فروش مصر حلاوت ہر اک زباں
رنگینی کلام ہے شیرینیٔ بیاں
حیراں لبوں کے نور سے اہل کمال ہیں
یہ ہونٹ ہیں کہ زیر و زبر دو ہلال ہیں

موئے کمر کی یہ قد گلگوں میں ہے بہار
جس طرح لعل سے ہو رگ لعل آشکار
پٹکے سے اور بھی ہوا یہ نقطہ پیچیدار
معنی میں عقل و فہم الجھتے ہیں بار بار
سادہ ہی نقش رہنے دیا اس مراد کا
کھل جائے گا بندھا ہوا مضموں جہاد کا

قد راستی سے سایہ صفت پیرو امام
جاکر حریم باغ میں گر یہ کریں قیام
اپنا امام جان کے ہر قد کو لا کلام
سرو چمن نماز پڑھیں پشت پر تمام
ارزاں ملے تو مول یہ طوبیٰ کو لیتے ہیں
بیعانہ سدرہ کا الف قد سے دیتے ہیں

خوبی و فور نور بدن کی ہے یہ عیاں
کڑیاں زرہ کی ہیں رگ جاں کی طرح نہاں
جو شے نظر نہ آئے کروں اس کا کیا بیاں
سب کو گماں زرہ کا ہے لیکن زرہ کہاں
صاحب ہنر محب ہیں شہ ذوالفقار کے
پہنا ہے بر میں تیغوں کا جوہر اتار کے

ہیں خودوہ کہ جن سے بروج فلک ہیں کم
ہاتھوں میں یک قلم الف تیغ ہیں علم
خط شکست فرد سپر پر کریں رقم
دیکھو کمان و تیر بھی ہیں نون و القلم
نور سپر کے جلوے سے پر نور ہے زرہ
یہ طور ہیں تو سورۂ والطور ہے زرہ

حسن سلاح یہ ہے سنو زور کا بیاں
پائے شکوہ کوہ پہ رکھیں جو یہ جواں
سرمہ ہو کوہ چار طرف چشمے ہوں رواں
چاہیں زمیں بلند کریں مثل آسماں
جب کہہ کے یا جناب امیرؑ آئیں جوش پر
مثل سپر فلک کو بھی رکھیں یہ دوش پر

پنجے سے گر یہ کلۂ رستم کو دیں فشار
دنداں نکل پڑیں صفت دانۂ انار
مثل زرہ یہ جوہر فولاد لیں اتار
نعرہ کریں تو کوہ صدا دیں نہ ایک بار
جب یا حسینؑ کہہ کے یہ قبضے کو چوم لیں
یوسفؑ سے مصر لیں تو سکندر سے روم لیں

ہمت یہ ہے جو زرنہ ہو یہ سر عطا کریں
جرأ ت یہ ہے کہ لاکھوں سے تنہا دعا کریں
طلعت یہ ہے کہ ذرے کو شمس الضحیٰ کریں
قدرت یہ ہے کہ شمع سے شعلہ جدا کریں
دشمن اگر فلک پہ بھی وقت جدال جائے
تیغ ان کی آسمان پہ مثل ہلال جائے

ہو آگ سرد خوف سے یہ گرم ہوں اگر
لو ہا ہو موم سنگ ہو پانی دم نظر
آہستہ پنجہ رکھ دیں جو دشمن کے پنجے پر
در آئے صاف پنجے میں یوں پنجہ سر بسر
پھر سوزن خرد کو نہ یارا رفو کا ہو
دستانہ ان کے ہاتھ کا پنجہ عدو کا ہو

مرکب عراقی و عربی رشک حور طور
یکساں ہر ایک راہ ہے ان گھوڑوں کے حضور
دریا و کوہ پست و بلند و قریب و دور
چل پھر کا امتحاں جو کریں صاحب شعور
غصے سے یاں تلک یہ ضعیف و نزار ہوں
تاگے کی طرح سوئی کے ناکے سے پار ہو

بال ان کے شہپر ملک الموت موبمو
والجمع ان سے دوست پریشاں مگر عدو
ہوں قطرہ زن تو چرخ پہ کرلے ہما وضو
محراب نعل میں رہے سجدے کی آرزو
بے بال و پر مثال شرر اڑتے پھرتے ہیں
بن بن کے بجلیاں صف دشمن پہ گرتے ہیں

جلاد کربلا کے ہیں موجود اس طرف
خولی و شیث و ابن ربیعئ ناخلف
وہ یا یزید کہتے ہیں یہ یاشہ نجف
تیغیں اپی ہوئی نظر آتی ہیں صف بصف
کس پر جفا و ظلم کا واں خاتمہ نہیں
ہاں بہر ذبح اک پسر فاطمہؑ نہیں

گوپال آ ہنی لیے اک سمت بد گہر
بھالے سنبھالے دوش پہ اک طرف نیزہ ور
اک سولئے کمندوں کے حلقے زبوں سیر
تھے اپنے اپنے غول میں وہ غول سر بسر
گرز گراں تھے بعض گراں سر لئے ہوئے
بعضے شریر صارم وجمدھر لئے ہوئے

وہ رستمان حرب عرق و عرب کے بل
وہ ٹولیاں سواروں کی وہ پیدلوں کے دل
وہ ڈانڈ پر چمکتے ہوئے برچھیوں کے پھل
سریاں وہ گول گول وہ پیکان چو پہل
اڑنا وہ بیرقوں کا لچکنا نشانوں کا
بل کھانا رایتوں کا دمکنا سنانوں کا

تیشے لئے سواروں کے ہمراہ خیل تاش
ہوں جن کے دست جور سے کہسار پاش پاش
بد خواہ و بدمست و بد آئین و بد قماش
جمالوں کی وہ صوت حدی سامعہ خراش
محمل سے تھی کسے ہوئے آنچل ہوائے تند
ناقے تھے یا ہوئی تھی مشکل ہوائے تند

کوسوں تلک تھے دامن جنگل میں کینہ خواہ
کوتہ ہوئی تھی وسعت صحرا پئے سپاہ
بھیڑ اس قدر کہ پیک نظر کو ملے نہ راہ
فکر و قیاس وہم جہاں جا کے ہو تباہ
ہم راہ ان خبیثوں کا رہبر مگر ہوا
ناری دخان شعلہ بنے جب گزر ہوا

مختار نعرہ زن تھا سوئے لشکر گراں
ہاں بہر حرب و ضرب بڑھو کھول کر نشاں
نکلا ادھر سے مرۂ ظالم لئے سناں
یہ وہ تھا جس نے مارا تھا اکبرؑ کو نوجواں
یاں سے یتیم مالک اشتر رواں ہوا
گویا کہ حلق کفر پہ خنجر رواں ہوا

حشمت ابد ابد تھی تو رونق ازل ازل
ہستی پکارنے لگی ہر سو اجل اجل
قالب کا روح کو تھا اشارہ نکل نکل
بولی زمین گاوز میں سے سنبھل سنبھل
ہاں رن میں آمد آمد مرد دلیر ہے
یہ شیر کردگار کے شیروں کا شیر ہے

مرہ نے وہ رجز پڑھا جس سے ہوئے وہ غش
بولا شقی میں قاتل اکبرؑ ہوں شیروش
یہ بولے ہم ہیں فدیۂ سادات فاقہ کش
جن کے عزیز رن میں موئے کہہ کے الطعش
ازدر لقب دیا ہے مجھے کرد گار نے
بخشی ہے تیغ فتح شہ ذولفقار نے

ازرق یزیدی فوج میں تھا فخر رو و شام
نام آوروں کی تیغوں پہ کندہ تھاجس کا نام
رہتا تھا محو ضرب شجاعوں سے صبح و شام
اور نام ان کے لکھے تھے اک فرد پر تمام
باندھا تھا شانے پر وہ نوشتہ غرور سے
کم جانتا تھا زور سلیماں کو زور سے

اک دفعہ خود روم کیا اس نے زیب سر
اور زیب جسم کی زرۂ مصر سر بسر
چار آئینہ حلب کا سنوارا ادھر ادھر
لٹکا لیا کمان کیانی کو دوش پر
مکے کی ڈھال رخ پہ امید نجات میں
ایک تیغ ہند زیر رکاب ایک ہاتھ میں

جنبش میں آیا کوہ کی صورت میں وہ شریر
گردش میں لایا نیزے کو مانند چرخ پیر
رہوار مغربی پہ چڑھا بہردار و گیر
زریں کمر غلام لیے سب کمان و تیر
حیران اس کی دید سے ہر ایک جواں ہوا
لشکر سے یا معاویہ کہہ کر رواں ہوا

جاکر حضور ابن حسنؑ اس نے دی ندا
ازرق مرا خطاب ہے مشہور جا بجا
اے طفل جنگجو ترا نام و نسب ہے کیا
فرمایا نام قابض ارواح ہے مرا
ہنگامۂ حیات کو اب فوت جانیو
اپنے لیے مجھے ملک الموت جانیو

یہ کہہ کے اس لئیم ازل پر کیا جووار
ابرو کی ب کو دو کیا دال دہن کو چار
اللہ رے آتش دم شمشیر شعلہ بار
ارزق کی تیغ پر جو پڑا عکس ایک بار
مثل سپند جوہر شمشیر اڑ گئے
رن کی زمیں سے اختر سیار مڑ گئے

کیا کاٹنے میں آب دم تیغ تیز تھا
تیزاب سے بھی تیز بوقت ستیز تھا
رہوار بے حواس دم جست و خیز تھا
پر لنگ انکے ہاتھ سے پائے گریز تھا
پٹکا پکڑ کے لے گئے یوں اس کو زین سے
وہ زین سے جدا ہوا مرکب زمین سے

ہم میں بھی ہیں انہیں کے کرم سے یہ سب ہنر
سن ہو گیا یہ سنتے ہی سر ہنگ خیرہ سر
جینے سے ہاتھ اٹھا کے لگائی سناں مگر
غازی نے دار خالی دیا رخش پھیر کر
پھر نیزہ کاٹا تیغ سے یوں ایک ضرب میں
اک نصف شرق میں گرا اک نصف غرب میں

نیزے کے بدلے نیزہ لگا یا جو دوڑ کر
شمع سناں کا ہو گیا فانوس اس کا سر
پر وانہ وار چلنے لگے مرغ جاں کے پر
بولے گرا کے آب دہن اس کی ریش پر
دوزخ میں جا یزید کی خدمت کے واسطے
دنیا میں تیرا نام ہے لعنت کے واسطے

تنہا ادھر تھے آپ ہزاروں شقی ادھر
اس پر نہ تھا ہر اس زہے دل خوشا جگر
چلتی تھیں برچھیاں کبھی تیغیں کبھی تبر
سب کو جواب دیتی تھی اک تیغ شعلہ ور
پھرتی تھی جب کہ ضرب عدد روک روک کر
دو کرتی تھی ہر ایک کو پھر ٹوک ٹوک کر

پر جس شقی پر عکس حسام ظفر گرا
دو ٹکرے ہو کے نصف ادھر نصف ادھر گرا
سائے کی طرح پاؤں پہ سردوڑ کر گرا
غل تھا زمیں پہ کفر و ضلالت کا در گرا
جب وقت ضرب ہاتھ میں شمشیر پھر گئی
مالک کی سب کی آنکھوں میں تصویر پھر گئی

تن سے علیحدہ ہوئیں تیغیں مع کمر
قرص سپر کے ساتھ اڑے تیز تیز پر
بکتر زرہ کے ساتھ کٹے ہو کے خوں میں تر
چلوں کے ساتھ ہاتھ تو تھے سر کے ساتھ سر
رایت سناں کے ساتھ جھکے کانپتے ہوئے
پرچم گرے پھر ہروں سے منہ ڈھانپتے ہوئے

اک منہ کے دو منہ آئے نظر وہ صفائے تیغ
نابیں تھیں یادو ابروئے جنگ آزمائے تیغ
جوہر تھی یا کہ خندۂ دنداں نمائے تیغ
وہ چم وہ خم وہ باڑھ وہ بانکی ادائے تیغ
زخموں کے گل کھلے جو وہ گلگوں قبا چلی
دل پس گئے جدھر کو وہ نازک ادا چلی

پڑھتی ہوئی زبان سے ناد علی پھری
تعزیر اہل شام کو دی جان لی پھری
سینوں میں اور دلوں میں خفی اور جلی پھری
کس کس ادا و ناز سے اٹھی چلی پھری
دامان دشت خون سے گل رنگ ہوگیا
بھاگاجو اسپ کوئی تو چورنگ ہوگیا

وہ دم کس اس کا اور وہ چم خم و آب و تاب
آفت کی باڑھ قہر کا کاٹ اور غضب کی آب
جس ناب سے کہ زہرۂ رستم ہو خون ناب
دریائے تیغ ہر پل محشر کا تھا جواب
دریا چڑھا وہ خوں کا کہ پیراک ڈر گئے
نالوں کے پل پہ سر بدنوں سے اتر گئے

بسمل پڑے تھے دن میں کہیں کہہ کہیں پہ مہ
نیزوں کے بند قرص سپر حلقۂ زرہ
کھولی اجل نے ناخن تدبیر سے گرہ
استادہ خاک پر کہیں سیسر کہیں پہ زہ
جمدھر کہیں عمود کہیں برچھیاں کہیں
ترکش کہیں خدنگ کہیں اور کماں کہیں

شپیرؑ کے غلاموں سے کہتے تھے اشقیا
تم کیا ہو ہم پہ ورنہ ہوئے شاہ دوسرا
ہم نے قلم کیا سر فرزند مرتضیٰ
ہم نے رسولؐ زادیوں کی چھین لی قبا
زندہ خدا کرے اگر ابن بتولؑ کو
پھر کاٹیں بوسہ گاہ جناب رسولؐ کو

اصغرؑ جو زندہ ہو تو ابھی تیر پھر لگائیں
زخمی کریں جگر کو جو اکبرؑ کا سینہ پائیں
شانے امام حسینؑ کے بازو کے کاٹ لائیں
مقدور ہو تو بلوے میں سادات کو پھرائیں
منظور قتل عام کی اب سیر ہے تمہیں
شر ہم سے کرنے آئے ہو کچھ خیر ہے تمہیں

دیتے تھے یہ جواب غلامان مرتضی
ہاں یہ غرور ہے تمہیں اے لعنت خدا
واں رحم تھا کرم تھا مروت تھی صبر تھا
جتنا خدا کا حکم تھا اتنا ہر اک لڑا
چمکی تھی تیغ جب کہ شہ کم سپاہ کی
کس نے دہائی دی تھی رسالت پناہ کی

خیر ان کی ان کے ساتھ شجاعت تھی یا کرم
اب آج اس طرح سے لڑو تم تو جانیں ہم
لیکن حلال خون عدوئے امام ہے
تم کو بھی ماریں بچوں کے سر بھی کریں قلم
کھانا ہمیں حرام ہے پینا حرام ہے
لیکن حلال خون عدوئے امام ہے

اک دن میں دیکھ لیجیو کس کس کا خون بہا
کس کس کی عورتیں پھریں کوچوں میں بے ردا
سب کچھ یہ ہم کریں گے مگر وا مصبتا
دل سے مٹے گا داغ نہ زینب کی قید کا
کونین ہوں جو قتل تو راضی خدا نہ ہو
یعنی حسینؑ فاطمہؑ کا خوں بہانہ ہو

جب خون ناحق شہدا جوش زن ہوا
اور انتقام کا ترو تازہ چمن ہوا
مختار مورد مدد پنچتن ہوا
محو قصاص قتل شہ بے کفن ہوا
کوفہ سلاح پوشوں سے آباد ہوگیا
تختہ زمیں کا بیضۂ فولاد ہوگیا

آیا ادھر سے جب ورقہ جنگ کو ادھر
قبضے میں تیغ سطر تھی اور نقصے کی سپر
اس نامور نے تیغ کے ڈورے سے سربسر
مسطرپئے رقم کیا ورقہ کے جسم پر
تنخواہ زخم دے کے دل افسردہ کردیا
ورقہؔ کا چہرہ فرد برآوردہ کردیا

بولی اجل کے ٹکڑے برابر ہوئے ہیں چار
پر بے دلیل عقل کو آیا نہ اعتبار
رگ رگ کو عضو عضو کو اس نے کیا شمار
گن ڈالے موئے کاسۂ سر بھی سب ایک بار
کیا ہاتھ تھا تلا ہوا اس خوش خصال کا
ٹکڑوں میں سر کے فرق نہ تھا ایک بال کا

اسحاقؔ نام آ کے ہوا پھر تو رزم خواہ
درہ اسی نے مارا تھا بنت علیؑ کو آہ
تیغ سفید دوش پہ رکھے تھا روسیاہ
غازی نے ہاتھ زیر بغل سے بڑھا کے واہ
یوں نوک تیغ کھینچی کہ غش وہ بھی کر گیا
قبضہ تو ہاتھ میں رہا اور پھل اتر گیا

تو طرفہ بے خودی کہ نہ ان پہ ہوا گماں
سمجھا کسی نے پشت پہ کی دزدیٔ نہاں
دیکھا قفا کو تیغ کا پھل تھا وہاں کہاں
پر تیغ ابن مالک اشتر پڑی یہاں
رخ تو ادھر تھا فرق جسد پر ادھر نہ تھا
واں دیکھا پھل نہ تھا جو مڑایاں تو سر نہ تھا

آکر دغا طلب ہوا پھر خازن عمر
نام اس کا در ہمی تھا سیہ قلب بدسیر
شکل فلوس تن پہ زرہ آتی تھی نظر
تیغ ان کی مثل سکہ ہوئی اس پہ کار گر
یوں تیغ خوردہ ہو کے زمیں کے تلے گیا
گویا چرا کے دزد اجل اس کو لے گیا

لکھا ہے تہ نشیں ہوا افسل مثال دُرد
مردہ نہ پایا ڈھونڈ پھرے گو بزرگ و خرد
تحت الثریٰ کو قہر خدا نے کیا سپرد
تھا درہمی زمیں نے کیا اس کو خورد برد
قارون کے خزانہ میں وہ تیرہ دل گیا
یہ درہمی بھی درہموں میں جاکے مل گیا

آئی ندا علیؑ کی کہ شاباش میرے شیر
مختار بولا ایدک اللہ اے دلیر
اب ہم لڑیں گے دم لو وغا کو ہوئی ہے دیر
تم سیر ہوگے خون سے ان کے نہ بندہ سیر
ہاں بڑھ کے کیا ہٹو کہ علیؑ کے غلام ہو
سقے کو بھیج دوں تم اگر تشنہ کام ہو

بولا وہ مڑ کے پیاس تو ہے پر نہیں ہراس
سقہ کھڑا ہوا ہے سکینہؑ کا میرے پاس
کہتے ہیں پانی پی لے جو تجھ کو لگی ہے پیاس
آقا کو میرا دھیان ہے آقا کو میرا پاس
پانی کا نام زہر سے اس دم زیاد ہے
وہ کربلا کا پیاسا بھی کچھ تم کو یاد ہے

ناگاہ اس طرف سے کماندار اک بڑھا
استاد اپنی فی میں تھا وہ بانی جفا
سوفار لب کو وا کئے دیتے تھے بددعا
چلہ کماں نے باندھا تھا جلد اس کو ہو قضا
بھاگا لگا کے تیر وہ تیر رواں کی شکل
غازی نے بڑھ کے کھینچا گریباں کماں کی شکل

تیغ اس نے کی حوالۂ رو جلد کھینچ کر
وہ آنکھ پر پڑی پہ ہوئی کچھ نہ کار گر
ابرو کی تیغ چشم کو جیسے نہ دے نظر
غازی نے زہ کماں کو کیا اور کہا ٹھہر
اک جنبش مژہ میں اسے کور کردیا
پلکوں کی طرح تیروں سے آنکھوں کو بھردیا

جب ایک ایک ورنہ ہوا بانی جفا
باہم دہل بجاتے بڑھے سارے اشقیا
طبل خروج یاں بھی بجا پھر تو جا بجا
لشکر سے لشکر آ کے غرض راہ میں ملا
ناحق گروہ ظلم جو شیعوں سے لڑتا تھا
خون گلو انہیں کا گریباں پکڑتا تھا

میداں میں فوج لڑتی تھی باہم ادھر ادھر
افسر تھا ان کا روکش مختار نامور
دونوں کا یوں مقابلہ جس طرح خیر و شر
گہہ دور گاہ پاس گہے وقفۂ ہنر
مل کر کبھی سپر سے سپر منہ کی کھا گئی
لڑ کر کبھی سناں سے سناں لڑکھڑا گئی

آیا نہ اس کی فوج سے کوئی پئے مدد
اک دو کے بیچ میں نہیں جیسے کوئی عدد
مہر سپر کی تیغ نے مانی نہ کچھ سند
جس طرح خار سے سپر آبلہ ہو رد
بل رشتۂ کمر کی گرہ سے نکل گیا
چھن چھن کے دل کا درد زرہ سے نکل گیا

شرما کے وہ تو بھاگ گیا صورت شرر
مختار سوئے فوج پھرا سینہ تان کر
انگشتری کی طرح سے سرہائے اہل شر
نیزے کی پور پور میں آنے لگے نظر
ہر چشم میں سناں پہ چبھوتا تھا خشم میں
پتلی نہ مثل دیدۂ سوزن تھی چشم میں

کھینچا بغل میں تنگ زرہ پوش کو اگر
کڑیاں رگوں کی طرح چبھیں تن میں سر بسر
اور سر میں ضرب مشت لگائی جو دوڑ کر
نکلا مثال آبلہ تلوے سے خود سر
اک دم میں خون فوج کے دریارواں ہوئے
کیا یسفک الدما کے معنی عیاں ہوئے

شامی کو زور حشر کا نقشہ دکھادیا
رومی کے دل سے رتبۂ قیصر بھلا دیا
مصری کو زہر خنجر ہندی پلا دیا
کوفی کو کاف مرگ کا مرکز بنادیا
اہل حلب تھے شیشہ صفت چور تیغ سے
زنگی کو مثل زنگ کیا دور تیغ سے

غازی تھے محو رزم لیے تیغ اور سپر
پیدا ہلال فتح بھی تھا اور شب ظفر
کٹ کر نشان ان کے گرے تھے ادھر ادھر
انبار نیزہ و سپر و تیغ و خود وسر
تھا شور الحذر فلک بے دریغ سے
دل چاک تھا زمیں چکا چاک تیغ سے

مختار کہتا تھا کہ بروح ابوتراب
ڈوبے گی جب تلک نہ لہو سے مری رکاب
میں خانماں کروں گا ستمگاروں کا خراب
کی شیعۂ علیؑ کی دعا حق نے مستجاب
خون آ کے اس کے پاؤں پڑا قتل گاہ میں
یعنی کہ بس کوئی نہیں باقی سپاہ میں

مختار نامور نے کیا سجدۂ خدا
قاتل جو کچھ رہے تھے اسیران کو کرلیا
شمر وسناں تھے حرملا تھا ابن سعد تھا
کی بزم عیش صبح کو ایوان میں بپا
جلوہ زیادہ ہوگیا بزم مراد کا
دو عیشیں تھیں کہ آیا سر ابن زیاد کا

سب قاتلوں کو بزم میں بلوا کے یہ کہا
کیوں آہ فاطمہؑ کا اثر آج تو کھلا
پھر حرملہ کو تو دہ کیا تیر عدل کا
اہل خطا پہ چلنے لگے تیر بے خطا
تلوار سے پیام اجل برملا دیا
پھر بورئیے میں رکھ کے بدن کو جلا دیا

ناری ہوا جو خاک تو دی عدل نے ندا
بس آج سرمہ دیدۂ انصاف کو ملا
پر خاک ہونے پر بھی صدا تھی جلا جلا
اور سر کیا عمر کابھی دیداروں نے جدا
دوڑا کے گھوڑے لاش پہ سب حرف زن ہوئے
پامال اس کے حکم سے ستردو تن ہوئے

تھرایا شمر دیکھ کے یہ حالت عمر
سب نے گرایا پشت بخاک اس کو کھینچ کر
اک سنگ لا کے چھوڑ دیا اس کے سینے پر
رویا شقی تو بولا یہ مختار خوش سیر
خاموش استغاثہ نہ اے بدنہاد کر
وہ بیٹھنا حسینؑ کے سینے پہ یاد کر

زینبؑ خداکے واسطے دیتی رہی اور آہ
بیٹھا رہا تو سینے پہ سید کے بے گناہ
بنت سکینہؑ کرتی رہی وا محمداہؐ
کاٹا کیا تو چین سے احمدؐ کی بوسہ گاہ
انجام ہے یہ خون شہ بے گناہ کا
دیکھا اثر جناب رسالتؐ کی آہ کا

یہ کہہ کے سر اتار لیا تن سے ایک بار
پھر تو سناں پہ چلنے لگے برچھیوں کے وار
غل تھا یہ ہے وہ دشمن مولائے بے دیار
بالشت بھر جگہ سے ہوا جس کا نیزہ پار
شہ رگ جو کاٹی تیغ سے اس روسیاہ کی
مردود نے تو آہ کی ہاتف نے واہ کی

ہنگامۂ قصاص تھا برپا کہ ناگہاں
مسلم کے اک یتیم کا قاتل ہوا عیاں
تھامے ہوئے تھا مرکب زخمی کی وہ عناں
آنسو تھے دونوں آنکھوں سے اس گھوڑے کے رواں
راکب کی یاد دیکھ کے مرکب کو آگئی
وہ آہ سب نے کی کہ زمیں تھر تھرا گئی

ناگاہ ایک بچہ وہاں آیا رشک ماہ
منہ بھولا بھولا رخ پہ سیادت کا عزو جاہ
پر ٹوپی اس کے سر پہ نہ کرتا گلے میں آہ
گیسو پہ خاک ڈالے ہوئے مثل داد خواہ
فاقے سے تھا یہ حال کہ جان اس کی جاتی تھی
آواز استخواں سے لرزنے کی آتی تھی

قاتل کے گرد جمع تھے مومن ادھر ادھر
مختار تک نہ جا سکا وہ غیرت قمر
فاقے سے گر کے رونے لگا در پہ بیٹھ کر
مختار بولا کون یہ ہے لاؤ تو خبر
سب نے کہا غریب سا اک لڑکا روتا ہے
جرأت نے دی ندا کہ یہ مسلم کا پوتا ہے

محفل میں اس کو لا کے مخاطب ہوئے بشر
سید تمہارا نام کہا اس نے بے پدر
بے کس یتیم مسلم بیکس کا ہوں پسر
مختار بولا سیدنا آئے تم کدھر
رو کر کہا کہ وقت میں یاں تک خلل پڑا
فاقوں کے مارے بھائی میں گھر سے نکل پڑا

محفل میں سب نے نوحہ کیا وا محمدؐاہ
یہ حال مصطفےٰ کے یگانوں کا آہ آہ
مختار نے پنہایا اسے کرتا اور کلاہ
وہ بولا میری ماں بھی ہے عریاں خدا گواہ
مختار نے دراہم و خلعت منگادیئے
سید نے چھوٹے ہاتھ دعا کو اٹھا دیئے

مختار نے کہا کہ طلب کچھ تو اور کر
بولا دکھا کے باپ کے قاتل کو وہ پسر
بس یہ ہے آرزو کہ ہمیں کاٹیں اس کا سر
اک نیمچہ منگا کے دیا اس نے جلد تر
فاقوں سے گونقیہ بہت وہ یتیم تھا
پر نیمچہ جو مارا تو قاتل دو نیم تھا

پھر نیزوں پر علم کئے مختار نے وہ سر
اور کشتیوں میں اس نے دھرا رخت و مال و زر
بولا یہ دوستان علیؑ سے وہ خوش سیر
لے جاؤ ہے یہ ہدیۂ سجاد نامور
کہنا کوئی حسینؑ کا قاتل رہا نہیں
پر بے حسینؑ جینے کا اپنے مزا نہیں

زینبؑ کو میری سمت سے یہ دیجیو پیام
اے سیدہ حسینؑ کا تو کب ہے انتقام
پر قاتلوں کو قتل کیا میں نے لاکلام
رخت سیہ اتار اب اے خواہر امام
آئی ندا وہ سوگ نہ حاشا اتارے گی
زینبؑ اتارے گی تو نہ زہراؑ اتارے گی

لے کر چلے یہ ہدیہ غلامان بوتراب
مثل نزول رحمت حق پہنچے واں شتاب
اس دم مگر ہوئے در عابد پہ بار یاب
جب چاشت کھا رہے تھے امام فلک جناب
بچوں پہ ہو نہ فاقہ یہ مطلب تمام تھا
ان کا تو ماحضر غم قتل امام تھا

فضہ کو مومنوں نے بلایا قریب در
وہ سر بھی کشتیاں بھی اسے سونپیں سربسر
مختار کا پیام کہا ہاتھ باندھ کر
فضہ وہ ہدیے لے گئی زینبؑ کو دی خبر
دن آج تو خدا نے دکھایا مراد کا
بی بی مبارک آیا سرابن زیاد کا

حجرے میں اپنے بھائی کے وہ کرتی تھی بکا
آہ و فغاں کے دھیان میں اس نے نہ کچھ سنا
بولی مبارکی کسے دیتی ہے کیا ہوا
اٹھ آیا کیا مزار سے دل بند مصطفیٰ
کیا جیتا قتل گاہ سے اکبرؑ پھرا مرا
کیا گھنٹیوں مدینے میں اصغرؑ پھرا مرا

وہ بولی قاتلوں کے سر آئے جدا جدا
زینبؑ پکاری آئے تو آنے دے مجھ کو کیا
ایسے شقی اگر ہوئے بے سرہزارہا
داغ حسینؑ مٹتا ہے دل سے کہیں بھلا
محشر تلک رہے گا یہ ناسور سینے میں
ہے ہے حسینؑ قبر میں زینبؑ مدینے میں

مرجانہ کے پسر کا جو عابدؑ نے دیکھا سر
بولے حرم سے قدرت حق پر کرو نظر
اک دن وہ تھا کہ کھاتا تھا کھانا یہ بد سیر
جب شمر لے گیا تھا سر شاہ بحر و بر
بارہ گلے بندھے ہوئے اک ریسمان سے
ہم تم کھڑے تھے چپکے اسیروں کی شان سے

اور ایک روز یہ ہے کہ ہم کھاتے ہیں غذا
سر اس کا میرے سامنے یہ ہے دھرا ہوا
سجدے کو گر پڑے حرم شیر کبریا
آئیں گھروں سے عورتیں سن کر یہ ماجرا
ہر سر کی سمت کو یہ حرم کا اشارا تھا
لوٹا تھا اس نے اس نے ہمیں نیزہ مارا تھا

دیکھا سکینہؑ نے جو سر شمر بد صفات
گرنے لگی وہ سہم کے صغراؑ کا تھامے ہاتھ
بولی بہن ڈرو نہ ہے ڈرنے کی کون بات
انگلی اٹھا کے آہ پکاری وہ نیک ذات
کیوں کر نہ میں ڈروں کہ بہت صدمے پائے ہیں
صغراؑ ہمیں اسی نے طمانچے لگائے ہیں

عابدؑ سے یہ کہا کہ ذرا مجھ کو دو یہ سر
لے جاؤں اس کو قبر رسالتؑ پناہ پر
اور قبر کو ہلاؤں کہ یا سید البشر
حاضر ہے شمر جس نے لیا ہے مرا گہر
پوچھو تو کیا جواب یہ دیتا ہے آپ کو
مارا ہے کس خطا پہ سکینہؑ کے باپ کو

ناگہ کیا امام نے ان کشتیوں کو وا
دیکھا سفید کپڑوں کو اور آگئی حیا
رو کر زنان ہاشمیہ سے یہ پھر کہا
سمجھاؤ تم پھوپھی کو کہ بس ہوچکی عزا
حجرے سے باہر آتی ہے نے پانی پیتی ہیں
اعجاز ہے حسینؑ کے غم کا کہ جیتی ہیں

کہنا مری طرف سے کہ اے صاحب عزا
شپیرؑ کی عزا کا تمہیں اجر دے خدا
یثرب میں اب تلک کوئی دولہا نہیں بنا
سرمہ زنان ہاشمیہ نے نہیں دیا
یہ تو وہ غم ہے حشر تلک خلق روئے گی
پر اب مدینے والوں کو تکلیف ہوئے گی

لائیں جو کشتیاں سوئے زینبؑ وہ نوحہ گر
دیکھا زمیں پہ بیٹھی ہے تنہا جھکائے سر
نام حسینؑ لکھتی ہیں انگلی سے خاک پر
لے کر بلائیں حرفوں کی ملتی ہیں چشم پر
سب گرد بیٹھیں رونے کو منہ ڈھانپ ڈھانپ کر
قبر رسولؑ رہ گئی بس کانپ کانپ کر

جب رو چکیں تو کشتیوں کو کھول کر کہا
یہ کپڑے سب ہیں ہدیۂ مختار باوفا
ہم صدقے سوگ اتارئیے اے بنت مرتضی
اب تک کسی نے ہم میں سے شانہ نہیں کیا
ہم کپڑے پہنیں آب بھی وعدہ جو لیجئے
دیں سرمہ ہم بھی آپ اگر سرمہ دیجئے

زینب پکاری آہ کہاں جاؤں اے خدا
لوگو مجھے نہ تنگ کرو بہر مصطفی
گھر چھوڑ دوں اگر مرے رونے پہ ہو خفا
جنگل میں جا کے بھائی کی خاطر کروں بکا
مرتے ہوئے بھی سوگ نہ ہرگز بڑھاؤں گی
فردوس میں یہی کفنی پہنے جاؤں گی

کیا اک فقط حسینؑ برادر کا سوگ ہے
اے صاحبو بتولؑ کے گھر بھر کا سوگ ہے
اکبر کا سوگ ہے علیؑ اصغرؑ کا سوگ ہے
کس کا اتاروں سوگ بہتر کا سوگ ہے
اک اک برس جو سوگ کی ان کے ہوس کروں
ماتم مسافروں کا بہتر برس کروں

شادی تمہیں جہاں میں برابر نصیب ہو
عقد پسر عروسیٔ دختر نصیب ہو
زینب کو ماتم علی اکبرؑ نصیب ہو
یہ بوریائے سوگ برادر نصیب ہو
مرتی ہوئی میں گنج شہیداں پہ جاؤں گی
جن کا ہے سوگ قبر پہ ان کی بڑھاؤں گی

اچھا میں سرمہ دیتی ہوں خاک شفا منگاؤ
لو سوگ میں بڑھاتی ہوں بھائی سے پوچھ آؤ
اچھا یہ کپڑے گنج شہیداں پہ لے کے جاؤ
مس کرکے خاک پاک سے زینبؑ کے پاس لاؤ
ہدئیے میں سوگواروں کے یہ پیرہن دیا
حضرت کی لاش کو نہ کسی نے کفن دیا

سر ڈھانپ لوں کہو علی اکبرؑ بھی آئیں گے
بدلوں میں کپڑے بھائی گلے سے لگائیں گے
عباسؑ قتل گاہ سے تشریف لائیں گے
پونچھوں میں آنسو منہ علی اصغرؑ دکھائیں گے
مانگو دعا بتولؑ کی جائی کے واسطے
مرجائے روتی روتی یہ بھائی کے واسطے

زندہ ہوں صاحبو میں تمہاری نگاہ میں
مردہ ہوں میں فراق شہ کم سپاہ میں
زینب کہاں ہے آل رسالت پناہ میں
وہ وقت عصر ذبح ہوئی قتل گاہ میں
زہراؑ کے رشتہ داروں کی تقدیر پھر گئی
سب کے گلے پہ شمر کی شمشیر پھر گئی

گر تم کو اپنے ساتھ رلاؤں گناہگار
رونے کو گھر تمہارے جو آؤں گناہگار
یا اپنے گھر کسی کو بلاؤں گناہگار
مہماں جو شادی بیاہ میں جاؤں گناہگار
شادی کی رسم اٹھ گئی اس خاندان سے
سب تھا حسین تک وہ سدھارے جہان سے

پھر ماں کی قبر پر گئی زینبؑ برہنہ پا
بولی پسر کو روتی ہو تنہا لحد میں کیا
بی بی ہمارے رونے سے اب خلق ہے خفا
دو پہلوئے شکستہ میں تھوڑی سی مجھ کو جا
اماں بلا لو قبر میں مجھ بے نصیب کو
ہم آپ مل کے روئیں حسینؑ غریب کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse