روز دینے لگے آزار یہ کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روز دینے لگے آزار یہ کیا
by عاشق اکبرآبادی

روز دینے لگے آزار یہ کیا
اور سمجھتے ہو اسے پیار یہ کیا

جرم الفت کی ہے تقدیر یہ کیوں
ہم سے رہتے ہیں وہ بیزار یہ کیا

ناتوانی ہوئی ہمدرد مری
درد کہتا ہے کہ سرکار یہ کیا

تم تو غارت گر دل ہو صاحب
پھر تمہیں کہتے ہیں دل دار یہ کیا

آہ کی میں نے تو بولے ہے ہے
جی اٹھا عاشقؔ بیمار یہ کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse