روزہ خور کی سزا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روزہ خور کی سزا
by چودھری محمد علی ردولوی

لوگ کہتے ہیں کہ ہر بڑی چیز کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اصلیت کو ظاہر کردیتی ہے۔ دولت کے لیے شاعر کہتا ہے،

بادہ نوشیدن و ہشیار نشستن سہل است
گر بہ دولت برسی مست نہ گردی مردی

شراب کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کی شرافت اور کمینہ پن کو آئینہ کردیتی ہے۔ حج اور دوسری بڑی عبادتوں کے لیے کچھ ایسی ہی باتیں مشہور ہیں۔ اکثر جاہلوں کو کہتے سنا ہے کہ ایمان حجر اسود میں چمٹ کر وہیں رہ گیا۔ اسی قبیل کی ایک کہانی مجھ کو بھی یاد آگئی، سن لیجیے مگر اس کے پہلے عرض یہ ہے کہ دو تین معترضہ جملے بھی ہیں۔ کنایہ میں جو لطف ہے وہ تصریح میں کہاں۔ مگر ڈر لگتا ہے کہ اگر بیان کرتے نہ بنا تو قصہ گپ چپ کا لڈو ہوکر رہ جائے گا۔ برنارڈ شا اسی وجہ سے پچاس صفحے کے ڈرامے کے پہلے دو سو صفحے کا دیباچہ لکھتے ہیں، چھوٹے سارے بالے میاں بڑی ساری پونچھ۔ حضرات ہم کوئی دعویٰ اس قسم کا نہیں کرسکتے۔ ایک چھوٹی سی تمہید لکھنے کے بعد اطمینان سا ہوجاتا ہے کہ اب باوجود ہماری کج بیانی کے لوگ بات کی تہہ تک پہنچ ہی جائیں گے۔

شیخ جی سے نہ مجھ سے ہم مذاقی تھی نہ ہم سنی، مگر میرے ان کے مراسم تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ میں ایک دوست کے یہاں بیٹھا ہوا کچھ قلمی کتابوں کا ذکر کر رہا تھا کہ شیخ جی آگیے اور ہم لوگوں کی باتیں سن کر کہنے لگے۔ میرے پاس کچھ قلمی تصویریں ہیں۔ مجھ کو تعجب ہوا کہ شیخ جی ہڈیوں کا روزگار کرتے ہیں۔ ایسے پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں، ان کے یہاں قلمی کتابیں کہاں سے آئیں مگر انھوں نے کہا کہ اگر ابھی چلیے تو دکھادوں۔ میں اٹھا چلا گیا، انھوں نے پانچ چھ کتابیں دکھلائیں۔ ایک عملیات کی کتاب، ایک زہر عشق، ایک رقعات عالم گیری جو پچیس تیس برس ادھر کے لکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ چند پرانے اوراق قصے کے، خط معمولی تھا اور کاغذ بھی ایسا ہی ویسا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے اپنے لیے زہر عشق تو اس وجہ سے نقل کی ہوگی کہ اس کا چھپنا ممنوع تھا اور رقعات عالم گیری وغیرہ پیسے بچانے کو یا مشق کرنے کو نقل کی ہوگی البتہ دو اور کتابیں تھیں۔ ایک منطق الطیر اور ایک کلیات سعدی، یہ دونوں ولایت کے خط کی تھیں اور بعد کو کئی سو برس کی مستند ثابت ہوئیں۔ یہ دونوں نسخے دیکھ کر میری آنکھیں کھل گئیں۔

میں نے کہا شیخ جی یہ آپ نے کہاں سے پائے۔ معلوم ہوا کہ کوئی عزیز ان کے کہیں مولوی گیری پر نوکر تھے۔ اور آخر عمر میں شیخ جی کے یہاں آکر رہے تھے اور یہیں انتقال بھی ہوا۔ ان کے مختصر اثاثے میں یہ کتابیں بھی نکلی تھیں۔ میں نے چاہا کہ شیخ جی مجھ سے ان دونوں کتابوں کے دام لے لیں مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ یہ کمیاب اور قیمتی کتابیں ہیں اور بھلے چنگے دام ملیں گے۔ مگر شیخ جی نے باوجود کاروباری آدمی ہونے کے اس کو کسی طرح منظور نہیں کیا، اس کی دو وجہیں تھیں ایک تو یہ کہ شیخ جی دوسرے مذاق کے آدمی تھے جس میں کتابوں کا نہ ذکر تھا نہ قدر۔ دوسرے ان کی ایک غرض مجھ سے اٹکی تھی اور اسی وجہ سے میں چاہتا تھا کہ وہ دام لے لیں مگر انھوں نے نہ مانا اور کہنے لگے کہ اگر میں نے ان کتابوں کو نہ لیا تو ان کو شکایت ہوگی۔ گو میں ان کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا مگر ان نسخوں کو دیکھ کر منھ میں پانی بھر آیا اور میری خوغرضی نے غریب دوراندیشی کو چپ ہی کردیا۔

اس کے بعد شیخ صاحب ہمارے یہاں زیادہ آنے لگے۔ رفتہ رفتہ مراسم گہرے ہوگیے۔ ہمارے بے تکلف ہم مذاق احباب میں ایک صاحب کچھ خدائی فوجدار قسم کے تھے جن کو یہ بے جوڑ دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور شیخ جی اور ان کاسامنا اگر ہوجاتا تھا تو منٹ دومنٹ کے بعد کوئی نہ کوئی بہانا کرکے وہ اٹھ جاتے تھے۔ اکثر مجھ سے کہابھی کہ شیخ جی اور تمہاری دوستی کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔ یا تو تم ہڈی کا روزگار کرنا چاہتے ہو یا شیخ جی عنقریب شعر کہنا شروع کردیں گے۔ شیح جی سے مراسم کی بناپر ان کے ایک قرض دار میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایک جزو جائداد میری شیخ جی کے پاس رہن باقبضہ ہے جس کو شرائط دستاویز کی بنا پر میں آٹھ نو برس نہیں چھڑا سکتا۔ اگر آپ اپنے دوست سے سفارش کردیں تو میرا کام بن جائے۔

میں: حضرت، معاملات میں مجھ کو نہ ڈالیے۔ میرے اور شیخ جی کے نازک مراسم اس بارکو شاید نہ برداشت کرسکیں اور شاید روپیہ بھی آپ سے فراہم نہ ہوسکے۔

وہ صاحب: روپیہ میں کہاں پاتا، مگراس وقت ایک شخص اس جائداد کو بیع لینے پر تیار ہوگیا ہے۔ اگر یہ معاملہ ہوجائے تو شیخ جی کا قرضہ نکالنے کے بعد مجھ کو سو دو سو روپیہ بچ جائیں گے۔

ان صاحب کی مفلوک الحالی اور شریف تباہی پر مجھ کو تاسف آیا اور میں نے کہنے کا وعدہ کرلیا مگر اس سے زیادہ امید نہیں دلائی۔ دوسرے دن شیخ جی سے ملاقات ہوئی۔

میں: شیخ جی آپ کے فلاں عزیز اور راہن کہتے تھے کہ اگر آپ ان کو مرہونہ جائداد بیع کرنے کی اجازت دے دیں تو آپ کاقرضہ ادا کرنے کے بعد ان کو سو دو سو روپیہ بچ جائیں گے۔

شیخ جی: اس جائداد میں اتنی گنجائش کہاں ہے۔ میں نے جو روپیہ ان کو دیا ہے، وہی اس کے دام سے زیادہ ہے اور اس کو کون مول لے گا۔

میں: میں نے صرف اس وجہ سےعرض کردیا کہ میں نے راہن صاحب سے وعدہ کیا تھا، ورنہ میں نہ آپ کے نقصان کا ساتھی ہوں نہ راہن صاحب سے مجھ سے اس قدر مراسم ہیں کہ آپ ایسے عنایت فرماؤں پر زور ڈالنے کی جرات کروں۔

شیخ صاحب: جی نہیں۔ آپ کا فرمانا ایسا نہیں ہے کہ میں خیال نہ کروں۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر میرا روپیہ وصول ہوجائے تو مجھ کو کوئی عذر نہیں۔

میں: دیکھیے شیخ صاحب میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر مجھ کو کسی سے واسطہ ہے تو آپ سے۔ ان صاحب سے تو صرف شناسائی ہے۔ آپ میرے خیال سے ایسا ہرگز نہ کیجیے گا۔ میں آپ کے نقصان کا ساتھی کیسے ہوسکتا ہوں۔ اس معاملہ میں میری حیثیت ایک پیغام پہنچانے والے سے زیادہ نہیں ہے۔

شیخ جی: جی نہیں، انھوں نے کچھ تو سمجھ کر آپ سے کہلایا ہے۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں جائداد چھوڑنے کے لیے ہر وقت تیار ہوں۔ یہ خوشخبری میں نے راہن صاحب کو دے دی۔

رمضان شریف کا مہینہ، نچوڑ کاوقت تھا کہ راہن صاحب نازل ہوگیے۔ شیخ صاحب کو آدمی گیا کہ ذرا تکلیف کیجیے۔ وہ بھی تشریف لائے میرے پڑھنےوالےاس میٹھی پھیکی کہانی پر مجھ سے خفا نہ ہوجئے، آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کو دل بے تاب تھا۔

تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہیے

اگر کوئی رنگین کہانی دماغ میں نہ تھی تو کیا کرتا۔

’’گندام اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است‘‘

شیخ جی یعنی مرتہن صاحب اور خریدار صاحب دونوں روزے سے تھے اور ایک دوسرے کو یوں دیکھتے تھے جیسے اپنے مقابل ہی سے روزہ افطار کرنے کا ارادہ ہے۔ خالی موقع اور وقت کاانتظار ہے۔ شیخ جی کے انداز پر میرا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا کہ یہ اتنے سہل میں راضی ہوگیے ہیں، اس کے معنی کیا ہیں۔ بے چارے نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اپنی حیثیت بنائی ہے اگر یہ اسی طرح کی دریادلی سے کام لیا کرتے توآج یہ اطمینان کہاں سے نصیب ہوتا، ہو نہ ہو یہ مجھ کو زیربار احسان کیا چاہتے ہیں۔ اور پھر خیال آتا تھا کہ تم کون اتنے بڑے آدمی ہو کہ جس کے ذریعے سے ان کا ہزار پانچ سو کافائدہ ہونے والا ہے۔ دو بدوگفتگو میں سچائی کی ایک کھنک ہوتی ہے جیسےکھرے روپیہ میں۔ ان کی گفتگو دل کی کسوٹی پر پرکھتا تھا، اور رہ جاتا تھا۔ راہن صاحب کی پریشان حالی بھی ایک طرف دل میں جگہ کرچکی تھی۔ اس وجہ سے قوت متصرفہ بھی کچھ کمزور سی پڑگئی تھی۔ اسی پس و پیش میں تھا کہ مرتہن صاحب بھی آگیے اور ان کو یہ خوشخبری دینا ہی پڑی۔

مرتہن صاحب: آپ ہی خریدیں گے۔

راہن صاحب: جی ہاں۔

مرتہن صاحب: آپ کیا کھاکے خریدیں گے۔

خریدار صاحب: ارے ہم تو یہ خرید لیں اور آپ کو بھی خرید لیں۔

مرتہن صاحب: آپ ضرور خریدیں گے، ایسے جھپ جھالیے بہت دیکھے ہیں۔

خریدار صاحب: جھپ جھالیے ہوگے تم اور تمہارے باپ، ہڈیاں بیچ یچ کر چار پیسے جمع کرلیے ہیں، اس پر آئے ہیں ہم سے باتیں کرنے۔

مرتہن صاحب: اور تم نے سوائے تھانہ داروں کی دلالی کرنےکے عمربھر کیا کیا ہے۔ کچھ پونجی ہوگئی بس اپنے آپے سے باہر ہوگیے۔

میں: ہاں ہاں صاحب، آپ لوگ لڑتے کیوں ہیں شریفوں کی طرح باتیں کیجیے۔ آپ معاملہ طے کرنے آئے ہیں یا گالی گلوج کرنے۔

خریدار صاحب: میں نے تو کچھ کہا بھی نہیں تھا۔ یہ توانھوں نے آتے ہی آتے اس قسم کی باتیں شروع کیں۔

راہن صاحب: اچھا اب آپ ہی طرح دے جائیے ہوگا۔

خریدار صاحب: طرح کیا دی جائے، کہیں دو چار سو روپیہ پانچ چھ روپیہ سیکڑہ پر لگائے ہوں گے، اس پر آئے ہیں مقابلہ کرنے۔

شیخ جی: (گرج کر) بارہ روپیہ سیکڑہ سے کم پر تو ہم بات نہیں کرتے ہیں۔

خریدار صاحب: چلو ہمارے ساتھ، ہم چوبیس روپیہ سیکڑہ تک کی دستاویزیں دکھلادیں اور کمیشن اوپر سے۔ تم کو نصیب نہ ہوا ہوگا یہ نرخ لینا۔

میں: ان فضول باتوں سے کون مطلب، اگر آپ کو لڑنا ہی ہے تو باہر جاکر لڑیے۔

ناظرین ان حضرات کی طرف سے میری معذرت قبول کیجیے۔ خدا کے یہ نیک روزہ دار بندے نہ خاندانی مہاجن تھے نہ باپ دادا کے وقت سے سودخوری کے مشاق تھے۔

اسی وجہ سے معاملہ فہمی میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی مگر قرینے سے معلوم ہوتا تھا کہ ایک پشت کے بعد باوجود رمضان شریف کے بردباری اور سودخوری دونوں میں مضبوط ہوجائیں گے۔ ان حضرات کے منھ سے جھاگ اڑ رہی تھی۔ لہریں نہیں بلکہ جوار بھاٹے آرہے تھے۔ ہونٹوں کے کناروں پر سمندر پھین جمتا جاتا تھا اور ان دو نیک لوگوں میں ہم روزہ خور گناہ گار پھنس گیے تھے۔ ان کے منھ سے خوشبوؤں کے بقعے بھق بھق اڑ رہے تھے اور ہم محسوس کر رہے تھے کہ روزہ نہ رکھنے کے عذاب میں گرفتار ہیں۔ اسی تو تو میں میں کے درمیان میں ہمارے خدائی فوجدار قسم والے دوست بھی آگیے۔ تھوڑی دیر چپ رہے۔ اس کے بعد میری پریشانی دیکھ کر کہنے لگے، ’’شیخ جی سے دوستی بھی کروگے اور روزہ بھی نہ رکھوگے اور روزہ دار کے منھ کی بو سے بھی گھبراؤگے۔ آخر تمہارا حشر کیا ہونے والا ہے۔‘‘


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.