روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا
by امانت لکھنوی

روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا
دشت غربت میں مسافر کو وطن یاد آیا

چٹکیاں دل میں مرے لینے لگا ناخن عشق
گلبدن دیکھ کے اس گل کا بدن یاد آیا

وہم ہی وہم میں اپنی ہوئی اوقات بسر
کمر یار کو بھولے تو دہن یاد آیا

برگ گل دیکھ کے آنکھوں میں ترے پھر گئے لب
غنچہ چٹکا تو مجھے لطف سخن یاد آیا

در بدر پھر کے دلا گھر کی ہمیں قدر ہوئی
راہ غربت میں جو بھولے تو وطن یاد آیا

آہ کیوں کھینچ کے آنکھوں میں بھر آئے آنسو
کیا قفس میں تجھے اے مرغ چمن یاد آیا

پھر امانتؔ مرا دل بھول گیا عیش و طرب
پھر مجھے روضۂ سلطان زمن یاد آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse