رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
by مضطر خیرآبادی

رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
تجھے کس گوہر نایاب کی ہے جستجو پانی

وہی میرے لیے ساقی مئے گلفام بن جائے
جو اپنے دست نازک سے پلا دے مجھ کو تو پانی

اگر دریا میں تم دست حنائی اپنے دھو لیتے
تو اب تک ہو گیا ہوتا کبھی کا سرخ رو پانی

کیا کرتے تھے بڑھ بڑھ کر بہت باتیں صفائی کی
مرے اشکوں نے کر دی موتیوں کی آبرو پانی

بہت آسان ہے مضطر ذلیل و خوار ہو جانا
جو مشکل ہے تو چشم خلق میں کچھ آبرو پانی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse