رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح
by امانت لکھنوی

رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح
گرہ میں رکھتے ہیں ہم آبرو گہر کی طرح

سنی صفت کسی خوش چشم کی جو مردم سے
خیال دوڑ گیا آنکھ پر نظر کی طرح

چھپی نہ خلق خدا سے حقیقت خط شوق
اڑا جہاں میں کبوتر مرا خبر کی طرح

سوائے یار نہ دیکھا کچھ اور عالم میں
سما گیا وہ مری آنکھ میں نظر کی طرح

عدم کی راہ میں کھٹکا رہا جہنم کا
سفر نے دل کو جلایا مرے سقر کی طرح

کھلے جو سب تو بندھا تار میٹھی باتوں کا
شکر گرہ میں وہ رکھتے ہیں نیشکر کی طرح

وہ عندلیب ہوں شہپر جو میرا مل جائے
چڑھائیں سر پہ سلاطیں ہما کے پر کی طرح

زکوٰۃ دے زر گل کی بہار میں گلچیں
چمن میں پھول لٹا اشرفی کے زر کی طرح

گری ہے چھٹ کے جو زانو پہ شام کو افشاں
ستارے یار کے دامن میں ہیں سحر کی طرح

مشاعرے کا امانتؔ ہے کس کو ہجر میں ہوش
کہاں کے شعر کہاں کی غزل کدھر کی طرح

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse