روئے تاباں مانگ موئے سر دھواں بتی چراغ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روئے تاباں مانگ موئے سر دھواں بتی چراغ
by احمد حسین مائل

روئے تاباں مانگ موئے سر دھواں بتی چراغ
کیا نہیں انساں کی گردن پر دھواں بتی چراغ

کچھ نہ پوچھو زاہدوں کے باطن و ظاہر کا حال
ہے اندھیرا گھر میں اور باہر دھواں بتی چراغ

دود‌ افغان و رگ جان و سویدا دل میں ہے
بند ہے قندیل کے اندر دھواں بتی چراغ

طور پر جا کر چراغ طور کیوں دیکھے کوئی
کیا مکانوں میں نہیں پتھر دھواں بتی چراغ

ہو موافق کیوں کر اے پروانے سایہ گستری
ہے مخالف زیر بال و پر دھواں بتی چراغ

کانپتا ہے ہاتھ تاثیر دل بیتاب سے
میں کروں روشن تو ہو مضطر دھواں بتی چراغ

صورت بخشش دکھاویں کاغذ و سطر و حروف
ہو عمل نامہ سر محشر دھواں بتی چراغ

خضر ہے بحری مسافر کا منار روشنی
ہے جہازوں کے لیے رہبر دھواں بتی چراغ

کیا ضرورت روشنی کی بے خودی کی بزم میں
زلف ساقی‌ موج مے ساغر دھواں بتی چراغ

شعلہ‌ رویوں کے مقابل رنگ جمتا ہی نہیں
اڑ نہ جائے بزم سے بن کر دھواں بتی چراغ

کس سلیقہ سے ہے روشن محفل‌ ارض و سما
آسماں پر چاند ہے گھر گھر دھواں بتی چراغ

صبح تک کرتے رہے روشن دلوں سے ہمسری
شام سے روشن نفس ہو کر دھواں بتی چراغ

عشق کی گرمی نے پھونکا پردے پردے میں مجھے
میری چادر میں مرا بستر دھواں بتی چراغ

زلف و رخسار و نظر ہیں دشمن ایمان و دیں
لوٹنے نکلے ہیں وہ لے کر دھواں بتی چراغ

میں وہ طائر ہوں جو ہوں کم خرچ اور بالا نشیں
ایک جگنو یاں ہے اور گھر گھر دھواں بتی چراغ

شب کو مائلؔ وقت آرایش مصاحب تھے یہی
پھول سرمہ آئنہ زیور دھواں بتی چراغ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse