رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا
by ریاض خیرآبادی

رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا
بے چراغ آج ہے ہر ایک نشیمن کیسا

دل پر داغ جو ہوتا ہے لحد میں بیتاب
جھلملاتا ہے چراغ سر مدفن کیسا

میں کہیں کا نہ رہا باد خزاں کے چلتے
اڑ گیا میرے مقدر سے نشیمن کیسا

اب خدا جانے بہار آتی ہے اس میں کہ نہیں
میرے دم سے کبھی آباد تھا گلشن کیسا

چھپ کے راتوں کو کہیں آپ نہ آئے نہ گئے
بے سبب نام ہوا آپ کا روشن کیسا

مال ہاتھوں نے لیا ہونٹھوں نے افشاں چن لی
آ کے قابو میں لٹا آپ کا جوبن کیسا

ہم نے دیکھے ہیں مقامات تجلی ان کے
طور کہتے ہیں کسے وادیٔ ایمن کیسا

ہے ابھی میرے بڑھاپے میں جوانی کیسی
ہے ابھی ان کی جوانی میں لڑکپن کیسا

ذبح کے وقت بہت صاف رہا تھا یہ تو
دے اٹھا خون دم حشر یہ دامن کیسا

تو دھری جائے گی اس گھر سے جو نکلی کوئی بات
نگہ شوق یہ دیوار میں روزن کیسا

میری سج دھج تو کوئی عشق بتاں میں دیکھے
ساتھ قشقہ کے ہے زنار برہمن کیسا

آئے ہیں داغ نیا دینے وہ مجھ کو پس مرگ
آج پھیلا ہے اجالا سر مدفن کیسا

مسی مالیدہ لب یار کی سن کر تعریف
منہ پھلائے ہوئے ہے غنچۂ سوسن کیسا

باغباں کام ہمیں کیا ہے وہ اجڑے کہ رہے
جب ہمیں باغ سے نکلے تو نشیمن کیسا

پارسا بن کے ریاضؔ آئے ہیں میخانے میں
آپ بیٹھے ہیں بچائے ہوئے دامن کیسا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse