رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں
by حاتم علی مہر

رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں
ساتھ کے یار چلتے جاتے ہیں

جن کی کرتے ہو تم مسیحائی
وہ مریض اب سنبھلتے جاتے ہیں

دل میں ہونے لگا حضور کا گھر
آپ سانچے میں ڈھلتے جاتے ہیں

زلف الجھتے ہے ان کے بالوں سے
سانپ کا سر کچلتے جاتے ہیں

شائق قتل کوئے قاتل میں
کودتے اور اچھلتے جاتے ہیں

دیکھتے ہیں وہ اپنا جوبن آپ
اب تو کچھ کچھ سنبھلتے جاتے ہیں

ہم تو روتے ادھر سے آتے ہیں
آپ ادھر سے مچلتے جاتے ہیں

مہرؔ سوئے تھے کس کے ساتھ کہ صبح
ٹھنڈے ٹھنڈے بھی جلتے جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse