رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
by جلیل مانکپوری

رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
دامن میں کوئی پھول لیے ہے گلاب کا

چاروں طرف سے اس پہ نگاہوں کا بار ہے
مشکل ہے ان کو رخ سے اٹھانا نقاب کا

تسکین خاک دیتے ہیں رکھ کر جگر پہ ہاتھ
پہلو بدل رہے ہیں مرے اضطراب کا

مدت ہوئی وہی ہے زمانے کا انقلاب
نقشا کھنچا ہوا ہے مرے اضطراب کا

بچپن کہاں تک ان کی امنگوں کو روکتا
آخر کو رنگ پھوٹ ہی نکلا شباب کا

رونا خوشی کا روتی ہے بلبل بہار میں
چھڑکاؤ ہو رہا ہے چمن میں گلاب کا

جھلکی دکھا کے اور وہ بجلی گرا گئے
اچھا کیا علاج مرے اضطراب کا

خاک چمن پہ شبنم و گل کا عجب ہے رنگ
ساغر کسی سے چھوٹ پڑا ہے شراب کا

کھوئے ہوئے ہیں شاہد و معنی کی دھن میں ہم
یہ بھی جلیلؔ ایک جنوں ہے شباب کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse