رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
by محمد ابراہیم ذوق

رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

ناخن خدا نہ دے تجھے اے پنجۂ جنوں
دے گا تمام عقل کے بخیے ادھیڑ تو

اس صید مضطرب کو تحمل سے ذبح کر
دامان و آستیں نہ لہو میں لتھیڑ تو

چھٹتا ہے کون مر کے گرفتار دام زلف
تربت پہ اس کی جال کا پائے گا پیڑ تو

اے زاہد دو رنگ نہ پیر آپ کو بنا
مانند صبح کاذب ابھی ہے ادھیڑ تو

یہ تنگنائے دہر نہیں منزل فراغ
غافل نہ پاؤں حرص کے پھیلا سکیڑ تو

ہو قطع نخل الفت اگر پھر بھی سبز ہو
کیا ہو جو پھینکے جڑ ہی سے اس کو اکھیڑ تو

جو سوتی بھیڑ باعث غوغا جگائے پھر
دروازہ گھر کا اس سگ دنیا پہ بھیڑ تو

عمر رواں کا توسن چالاک اس لیے
تجھ کو دیا کہ جلد کرے یاں سے ایڑ تو

آوارگی سے کوئے محبت کی ہاتھ اٹھا
اے ذوقؔ یہ اٹھا نہ سکے گا کھکھیڑ تو


Public domain
This work is in the public domain in countries where the copyright term is the author's life plus 70 years or less. See Copyright.