رنج ہے اس رنج سے ہم کو تو غم اس غم سے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنج ہے اس رنج سے ہم کو تو غم اس غم سے ہے
by صفی اورنگ آبادی

رنج ہے اس رنج سے ہم کو تو غم اس غم سے ہے
جو شکایت ہم کو ان سے ہے وہ ان کو ہم سے ہے

کیا پڑی ہے پھر کسی کے واسطے روتا ہے کیوں
آبروئے عشق اپنے دیدۂ پر نم سے ہے

جھوٹے منہ کوئی تسلی بھی نہیں دیتا کبھی
پھر یہ کیوں صاحب سلامت اپنی اک عالم سے ہے

دشمنوں کا دو ہی دن میں سب بھرم کھل جائے گا
ان کی ساری شان و شوکت ایک میرے دم سے ہے

ہاتھ جوڑے منتیں کیں خیر وہ تو من گئے
اور لوگوں کو بھی اب ایسی تمنا ہم سے ہے

اس مذاق خاص کے بھی لوگ دیکھے ہیں کہیں
آپ کی بھی جان پہچان آخر اک عالم سے ہے

سب صفیؔ کی آہ پر بے ساختہ کہتے ہیں واہ
اس کا رونا بھی مگر کچھ تال سے ہے سم سے ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse