رنج اور رنج بھی تنہائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنج اور رنج بھی تنہائی کا
by الطاف حسین حالی

رنج اور رنج بھی تنہائی کا
وقت پہنچا مری رسوائی کا

عمر شاید نہ کرے آج وفا
کاٹنا ہے شب تنہائی کا

تم نے کیوں وصل میں پہلو بدلا
کس کو دعویٰ ہے شکیبائی کا

ایک دن راہ پہ جا پہنچے ہم
شوق تھا بادیہ پیمائی کا

اس سے نادان ہی بن کر ملئے
کچھ اجارہ نہیں دانائی کا

سات پردوں میں نہیں ٹھہرتی آنکھ
حوصلہ کیا ہے تماشائی کا

درمیاں پائے نظر ہے جب تک
ہم کو دعویٰ نہیں بینائی کا

کچھ تو ہے قدر تماشائی کی
ہے جو یہ شوق خود آرائی کا

اس کو چھوڑا تو ہے لیکن اے دل
مجھ کو ڈر ہے تری خود رائی کا

بزم دشمن میں نہ جی سے اترا
پوچھنا کیا تری زیبائی کا

یہی انجام تھا اے فصل خزاں
گل و بلبل کی شناسائی کا

مدد اے جذبۂ توفیق کہ یاں
ہو چکا کام توانائی کا

محتسب عذر بہت ہیں لیکن
اذن ہم کو نہیں گویائی کا

ہوں گے حالیؔ سے بہت آوارہ
گھر ابھی دور ہے رسوائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse