رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے
by شیخ علی بخش بیمار

رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے
اب اور ہی معشوق سے یارانہ کریں گے

باندھیں گے کسی اور ہی جوڑے کا تصور
سر دھیان میں اس زلف کے مارا نہ کریں گے

امکان سے خارج ہے کہ ہوں تجھ سے مخاطب
ہم نام کو بھی تیرے پکارا نہ کریں گے

یک بار کبھی بھولے سے آ جائیں تو آ جائیں
لیکن گزر اس گھر میں دوبارا نہ کریں گے

کیا خوب کہا تو نے جو کھولوں ابھی آغوش
ملنے سے مرے آپ کنارا نہ کریں گے

گو خاک میں مل جائیں ہم اور وضع بدل جائیں
پر تجھ سے ملاقات خود آرا نہ کریں گے

اس نرگس بیمارؔ سے رکھتے ہیں شباہت
ہرگز سوئے عبہر بھی اشارا نہ کریں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse