رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے
by شاہ اکبر داناپوری

رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے
کدھر خیال گیا کیا خیال کر بیٹھے

خیال اسی پہ رہے دیکھ بھال کر بیٹھے
تمہاری بزم میں دل کو سنبھال کر بیٹھے

مرے گناہ پر ان زاہدوں کو حیرت ہے
یہ آدمی کو فرشتہ خیال کر بیٹھے

بچاؤں کیونکر اسے کس طرح انہیں ٹالوں
غضب ہوا کہ وہ دل کا سوال کر بیٹھے

رقیب خوش ہوئے اب تو تمہیں قرار آیا
کہ مثل رنگ مرا خون اچھال کر بیٹھے

فلک کی چال ہے یہ آدمی کی چال نہیں
چلے تو لاکھوں ہی کو پائمال کر بیٹھے

خموش کیوں ہو یہ نطق آدمی کا زیور ہے
جو کوئی بیٹھے کہیں بول چال کر بیٹھے

خبر نہیں کہ ہے کاجل کی کوٹھری دنیا
یہاں جو بیٹھے وہ دامن سنبھال کر بیٹھے

جہاں ہے نقش بر آب اس میں دم کے دم ہے قیام
کوئی کسی سے یہاں کیا ملال کر بیٹھے

تڑپ رہا تھا زمیں پر تڑپنے دیتے تم
کسی کا دل ہو کوئی پائمال کر بیٹھے

ٹٹولتے ہیں جگر کو کہ دل کو ڈھونڈتے ہیں
وہ میرے سینے میں کیوں ہاتھ ڈال کر بیٹھے

وہ میرا دل نہیں اے جاں رقیب کا دل ہے
تمہارا تیر جگہ دیکھ بھال کر بیٹھے

کیا خیال ذرا بھی نہ خون عاشق کا
حنا سے تم کف گل رنگ لال کر بیٹھے

ہجوم چاک گریبانوں کا ہے کوچے میں
حضور پردے سے کیوں سر نکال کر بیٹھے

یہ کیا کیا کہ انہیں دے دیا دل اے اکبرؔ
تمہیں خبر نہیں وہ تم سے چال کر بیٹھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse