رقیب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رقیب
by میراجی

تمہی کو آج مرے روبرو بھی ہونا تھا
اور ایسے رنگ میں جس کا کبھی گماں بھی نہ ہو
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت

چمن میں جیسے کسی باغباں کی آنکھوں نے
روش کے ساتھ ہی ننھے سے ایک پودے کو
شگفتہ ہو کے سنورتے نکھرتے دیکھا ہو
مری تمہاری کہانی یہی کہانی ہے

روش پر سر کو اٹھائے ہر ایک سوچ سے دور
میں اپنی دھن میں مگن تھا ہر تازہ قدم
مرے افق پہ چمکتے ہوئے ستارے کی
ہر اک کرن کو مرے پاس لائے جاتا تھا
مجھے نہ خار کا اندیشہ تھا نہ ٹھوکر کا
مگر یہ بھول تھی میری وہ خود فراموشی

مرے ہی سامنے آئی ہے اور صورت میں
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت
مگر اب اس کی ضرورت نہیں میں سوچتا ہوں
تمہی کو آج مرے روبرو نہ ہونا تھا
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا

مجھے کسی نے بتایا ہے آپ کے یہ دوست
ہمیشہ رات گئے اپنے گھر کو آتے ہیں
لبوں سے سیٹی بجاتے ہیں گنگناتے ہیں
کسی کی آہ کسی کے کرم سے مٹتی ہے

میں تجھ سے کہتی ہوں بہنا یہ کیا زمانہ ہے
نہ اپنے نام کا کچھ پاس ہے نہ گھر کی لاج
گئے مہینے سے ہر روز رات کو چھپ کر
ہماری بی بی کسی مردوئے سے ملتی ہے

مجھے یہ فکر نہیں نوکروں کو عادت ہے
کہ پر کو کوا بناتے ہیں رائی کا پربت
بس ایک دھیان کسی تیر کی طرح سیدھا
یہ سوچ بن کے مرے دل میں آ ٹھہرتا ہے
یہی ہے جس کا کبھی نام لاجونتی تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse