رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے
by اصغر گونڈوی

رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے
سامنے لا کر تجھے اپنا تماشا دیکھتے

کم سے کم حسن تخیل کا تماشا دیکھتے
جلوۂ یوسف تو کیا خواب زلیخا دیکھتے

کچھ سمجھ کر ہم نے رکھا ہے حجاب دہر کو
توڑ کر شیشے کو پھر کیا رنگ صہبا دیکھتے

روز روشن یا شب مہتاب یا صبح چمن
ہم جہاں سے چاہتے وہ روئے زیبا دیکھتے

قلب پر گرتی تڑپ کر پھر وہی برق جمال
ہر بن مو میں وہی آشوب و غوغا دیکھتے

صد زماں و صد مکاں و ایں جہاں و آں جہاں
تم نہ آ جاتے تو ہم وحشت میں کیا کیا دیکھتے

اس طرح کچھ رنگ بھر جاتا نگاہ شوق میں
جلوہ خود بیتاب ہو جاتا وہ پردا دیکھتے

جن کو اپنی شوخیوں پر آج اتنا ناز ہے
وہ کسی دن میری جان ناشکیبا دیکھتے

مے کدے میں زندگی ہے شور نوشا نوش ہے
مٹ گئے ہوتے اگر ہم جام و مینا دیکھتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse