رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
by حیدر علی آتش

رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
عالم ارواح سے صحبت کوئی دم کیجئے

حالت غم کو نہ بھولا چاہئے شادی میں بھی
خندۂ گل دیکھ کر یاد اشک شبنم کیجئے

عیب الفت روز اول سے مری طینت میں ہے
داغ لالہ کے لیے کیا فکر مرہم کیجئے

اپنی راحت کے لیے کس کو گوارا ہے یہ رنج
گھر بنا کر گردن محراب کو خم کیجئے

عشق کہتا ہے مجھے رام اس بت وحشی کو کر
حسن کی غیرت اسے سمجھاتی ہے رم کیجئے

رات صحبت گل سے دن کو ہم بغل خورشید سے
رشک اگر کیجے تو رشک بخت شبنم کیجئے

دیدہ و دل کو دکھایا چاہئے دیدار یار
حسن کے عالم سے آئینوں کو محرم کیجئے

شکل گل ہنس ہنس کے روز وصل کاٹے ہیں بہت
ہجر کی شب صبح رو کر مثل شبنم کیجئے

تھی سزا اپنی جو شادی مرگ قسمت نے کیا
ہجر میں کس نے کہا تھا وصل کا غم کیجئے

آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

روز مردم شب کیے دیتا ہے سرمہ پوچھیے
خون ہوتے ہیں بہت شوق حنا کم کیجئے

آئینہ کو روبرو آنے نہ دیجے یار کے
شانہ سے آتشؔ مزاج زلف برہم کیجئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse