رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم
by داغ دہلوی

رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم
کیا بروں کی جان کو روتے ہیں ہم

بے خودانہ اپنی ہشیاری رہی
جاگتے ہیں کچھ تو کچھ سوتے ہیں ہم

اپنے گھر رہنے دے کیوں کر حور وش
حضرت آدم ہی کے پوتے ہیں ہم

جاں کنی اپنا ہے کام اے کوہ کن
عشق میں پتھر نہیں ڈھوتے ہیں ہم

داغؔ ہے کس کو میسر درد عشق
رنج ہوتا ہے تو خوش ہوتے ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse