رشتے میں تری زلف کے ہے جان ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رشتے میں تری زلف کے ہے جان ہمارا
by سراج اورنگ آبادی
294438رشتے میں تری زلف کے ہے جان ہماراسراج اورنگ آبادی

رشتے میں تری زلف کے ہے جان ہمارا
بے جا نہیں سنبل کے اوپر مان ہمارا

سرمایۂ آشفتہ دلی جمع ہوا ہے
آ دیکھ صنم حال پریشان ہمارا

جیوں صورت دیوار ہوا محو تمنا
مشتاق ترا ہے دل حیران ہمارا

درپیش ہے ہم کوں سفر منزل مقصود
بس آہ سحر گاہ یہ سامان ہمارا

تیرے لب شیریں کی سنا جب سیں حکایت
کاشانۂ زنبور ہوا کان ہمارا

مجنوں کی طرح وحشی صحرائے جنوں نہیں
ہے وسعت مشرب سیتی میدان ہمارا

کہتے ہیں تری زلف کوں دیکھ اہل شریعت
قربان ہے اس کفر پر ایمان ہمارا

آزاد کئے قید سیں تسبیح کی اس کوں
ہے گردن زنار پہ احسان ہمارا

سینہ کے طبق میں ہے کباب دل پرسوز
جس دن سے غم ہجر ہے مہمان ہمارا

اے شوخ کشش سیں ترے ابرو کی کماں کی
دل ہاتھ سیں جاتا ہے ہر اک آن ہمارا

اے جان سراجؔ ایک غزل درد کی سن جا
مجموعۂ احوال ہے دیوان ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse