رشتۂ دم سے جان ہے تن میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
by عشق اورنگ آبادی

رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
منکے منکے سے تیرے سمرن میں

دیدۂ دل سے دیکھتا ہوں تجھے
سوچتا ہوں جب اپنے میں من میں

گل ہے شبنم سے آہ دیدۂ تر
بن وہ گل رو کے صبح گلشن میں

کربلا کے بگولے سارے کاش
خاک اڑاتا ہوا پھروں بن میں

گوہر آب دار کے مانند
اشک غلطاں ہیں میرے دامن میں

سرو گل زار سا سہاتا ہے
وہ مرا یار گھر کے آنگن میں

اپنی صورت کو اے شہنشہ حسن
عشقؔ کے دیکھ دل کے درپن میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse