رس کی انوکھی لہریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رس کی انوکھی لہریں
by میراجی

میں یہ چاہتی ہوں کہ دنیا کی آنکھیں مجھے دیکھتی جائیں یوں دیکھتی جائیں جیسے
کوئی پیڑ کی نرم ٹہنی کو دیکھے
لچکتی ہوئی نرم ٹہنی کو دیکھے
مگر بوجھ پتوں کا اترے ہوئے پیرہن کی طرح سچ کے ساتھ ہی فرش پر ایک مسلا ہوا
ڈھیر بن کر پڑا ہو
میں یہ چاہتی ہوں کہ جھونکے ہوا کے لپٹتے چلے جائیں مجھ سے
مچلتے ہوئے چھیڑ کرتے ہوئے ہنستے ہنستے کوئی بات کہتے ہوئے لاج کے بوجھ
سے رکتے رکتے سنبھلتے ہوئے رس کی رنگین سرگوشیوں میں
میں یہ چاہتی ہوں کبھی چلتے چلتے کبھی دوڑتے دوڑتے بڑھتی جاؤں
ہوا جیسے ندی کی لہروں سے چھوتے ہوئے سرسراتے ہوئے بہتی جاتی ہے رکتی
نہیں ہے
اگر کوئی پنچھی سہانی صدا میں کہیں گیت گائے
تو آواز کی گرم لہریں مرے جسم سے آ کے ٹکرائیں اور لوٹ جائیں ٹھہرنے نہ پائیں
کبھی گرم کرنیں کبھی نرم جھونکے
کبھی میٹھی میٹھی فسوں ساز باتیں
کبھی کچھ کبھی کچھ نئے سے نیا رنگ ابھرے
ابھرتے ہی تحلیل ہو جائے پھیلی فضا میں
کوئی چیز میرے مسرت کے گھیرے میں رکنے نہ پائے

مسرت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے
کھلا کھیت گندم کا پھیلا ہوا ہے
بہت دور آکاش کا شامیانہ انوکھی مسہری بنائے رسیلے اشاروں سے بہکا رہا ہے
تھپیڑوں سے پانی کی آواز پنچھی کے گیتوں میں گھل کر پھسلتے ہوئے اب نگاہوں سے اوجھل ہوئی جا رہی ہے
میں بیٹھی ہوئی ہوں
دوپٹا میرے سر سے ڈھلکا ہوا ہے
مجھے دھیان آتا نہیں ہے مرے گیسوؤں کو کوئی دیکھ لے گا
مسرت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے
بس اب اور کوئی نئی چیز میرے مسرت کے گھیرے میں آنے نہ پائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse