رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی
by آرزو لکھنوی

رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی
سینکڑوں ڈوب گئے پھر بھی ہے اتنا پانی

آنکھ سے بہہ نہیں سکتا ہے بھرم کا پانی
پھوٹ بھی جائے گا چھالا تو نہ دے گا پانی

چاہ میں پاؤں کہاں آس کا میٹھا پانی
پیاس بھڑکی ہوئی ہے اور نہیں ملتا پانی

دل سے لوکا جو اٹھا آنکھ سے ٹپکا پانی
آگ سے آج نکلتے ہوئے دیکھا پانی

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کر آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

پھیلتی دھوپ کا ہے روپ لڑکپن کا اٹھان
دوپہر ڈھلتے ہی اترے گا یہ چڑھتا پانی

ٹکٹکی باندھے وہ تکتے ہیں میں اس گھات میں ہوں
کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ ٹھہرا پانی

کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی

ہاتھ جل جائے گا چھالا نہ کلیجے کا چھوؤ
آگ مٹھی میں دبی ہے نہ سمجھنا پانی

رس ہی رس جن میں ہے پھر سیل ذرا سی بھی نہیں
مانگتا ہے کہیں ان آنکھوں کا مارا پانی

نہ ستا اس کو جو چپ رہ کے بھرے ٹھنڈی سانس
یہ ہوا کرتی ہے پتھر کا کلیجہ پانی

یہ پسینہ وہی آنسو ہیں جو پی جاتے تھے ہم
آرزوؔ لو وہ کھلا بھید وہ ٹوٹا پانی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse