رسوائے عشق میں ترا شیدا کہیں جسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رسوائے عشق میں ترا شیدا کہیں جسے
by ساحر دہلوی

رسوائے عشق میں ترا شیدا کہیں جسے
عشاق میں مثال ہے رسوا کہیں جسے

سینہ چمن ہے غنچۂ دل ہے شگفتہ دل
تیری نگاہ ہے چمن آرا کہیں جسے

غم پروریدہ ہے دل شوریدگان عشق
فرقت کی ایک رات ہے دنیا کہیں جسے

منسوب کفر دیر سے ایماں حرم سے ہے
اک رہ گیا ہوں میں کہ تمہارا کہیں جسے

ہم غیر معتبر سہی اور غیر معتبر
کہنا بجا ہے آپ کا جیسا کہیں جسے

ساحرؔ نفس وہ دام ہے جس میں کہ ہے اسیر
موج دم خیال کہ عنقا کہیں جسے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse