رسوائی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رسوائی
by مختار صدیقی

ٹیکا لگاؤں مانگ بھی صندل سے بھر چکوں
دلہن بنوں تو چاہیے جوڑا سہاگ کا
مہندی رچے گی پوروں کہیں جا کے دیر میں
کنگھی کروں تو چڑھتی ہے کالوں کی اور لہر
افشاں ہے بخت بھی کہ رہا ان کے پھیر میں
کہتی ہے سانجھ بھور کے اب گھاٹ اتر چکوں
تم بیٹھو میں تو آئی پہ جی سے گزر چکوں
اتنے دنوں تو دل کی لگی نے خدائی کی
پائل بجے تو بنسی کی دھن ناچ ناچ اٹھے
بد نامیاں کرشمے مرے دیوتا کے ہیں
دیدے گھما گھما کے کہیں کیوں نہ گوپیاں
ان کے چلن تو بگڑے ہوئے ابتدا کے ہیں
بپتا نہ ہوگی کل سے لگائی بجھائی کی
دہکے شفق تو دہکے چتا جگ ہنسائی کی

چیخیں سن سن کے سبھی نیند کے ماتے جاگے
سامنے دہکی ہوئی آگ کا پیکر دیکھا
چل کے دو چار قدم پھر سے پلٹ کر جولاں
چیخیں شعلوں کے دہکنے پہ لپک اٹھتی تھیں
دود کے حلقے رواں ہوئے فلک چرخ زناں
سب یہ سمجھے کہ کوئی غول بیابانی ہے
یوں ہی لوکا جو لگانے کو نکل آیا یہاں
باد پا آگ تھی یا لال رسیلی ساڑی
چھایا کالوں کی تھی شعلوں کی زبانوں کا دھواں
یک بیک کندنی باہیں بھی اٹھیں چیخ کے ساتھ
کانپتے آئے نظر پھول سے مہندی بھرے ہاتھ
ایک نے بڑھ کے وہیں آگ پہ ڈالا پانی
آگ یوں پانی کی شہہ پائے تو دوزخ نہ بنے
جیتے جی اشکوں سے کیا دل کی لگی بجھتی تھی
آگ پانی میں لڑائی جو چتا پر بھی ٹھنے
خاک ڈالی تو ہوئیں پھر کہیں مدھم آنچیں
بخت رسوا ہو تو رسوائی بنا کیسے منے
پوچھو جلنے کی تو جانے وہی جس تن لاگے
چیخیں سن سن کے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse