رسوائی
ٹیکا لگاؤں مانگ بھی صندل سے بھر چکوں
دلہن بنوں تو چاہیے جوڑا سہاگ کا
مہندی رچے گی پوروں کہیں جا کے دیر میں
کنگھی کروں تو چڑھتی ہے کالوں کی اور لہر
افشاں ہے بخت بھی کہ رہا ان کے پھیر میں
کہتی ہے سانجھ بھور کے اب گھاٹ اتر چکوں
تم بیٹھو میں تو آئی پہ جی سے گزر چکوں
اتنے دنوں تو دل کی لگی نے خدائی کی
پائل بجے تو بنسی کی دھن ناچ ناچ اٹھے
بد نامیاں کرشمے مرے دیوتا کے ہیں
دیدے گھما گھما کے کہیں کیوں نہ گوپیاں
ان کے چلن تو بگڑے ہوئے ابتدا کے ہیں
بپتا نہ ہوگی کل سے لگائی بجھائی کی
دہکے شفق تو دہکے چتا جگ ہنسائی کی
چیخیں سن سن کے سبھی نیند کے ماتے جاگے
سامنے دہکی ہوئی آگ کا پیکر دیکھا
چل کے دو چار قدم پھر سے پلٹ کر جولاں
چیخیں شعلوں کے دہکنے پہ لپک اٹھتی تھیں
دود کے حلقے رواں ہوئے فلک چرخ زناں
سب یہ سمجھے کہ کوئی غول بیابانی ہے
یوں ہی لوکا جو لگانے کو نکل آیا یہاں
باد پا آگ تھی یا لال رسیلی ساڑی
چھایا کالوں کی تھی شعلوں کی زبانوں کا دھواں
یک بیک کندنی باہیں بھی اٹھیں چیخ کے ساتھ
کانپتے آئے نظر پھول سے مہندی بھرے ہاتھ
ایک نے بڑھ کے وہیں آگ پہ ڈالا پانی
آگ یوں پانی کی شہہ پائے تو دوزخ نہ بنے
جیتے جی اشکوں سے کیا دل کی لگی بجھتی تھی
آگ پانی میں لڑائی جو چتا پر بھی ٹھنے
خاک ڈالی تو ہوئیں پھر کہیں مدھم آنچیں
بخت رسوا ہو تو رسوائی بنا کیسے منے
پوچھو جلنے کی تو جانے وہی جس تن لاگے
چیخیں سن سن کے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |