Jump to content

رخ ہر اک تیر نظر کا ہے مرے دل کی طرف

From Wikisource
رخ ہر اک تیر نظر کا ہے مرے دل کی طرف
by مخمور دہلوی
323878رخ ہر اک تیر نظر کا ہے مرے دل کی طرفمخمور دہلوی

رخ ہر اک تیر نظر کا ہے مرے دل کی طرف
آنے والے آ رہے ہیں اپنی منزل کی طرف

ڈوبنے والے کی مایوسی پہ دل تھرا گیا
کس نگاہ یاس سے دیکھا تھا ساحل کی طرف

سچ ہے اک اجڑی ہوئی دنیا کے کیا لیل و نہار
تم سے بھی اب تو نہ دیکھا جائے گا دل کی طرف

کس فسردہ خاطری سے رات بھر جلتی رہی
دیر تک دیکھا کیے ہم شمع محفل کی طرف

اپنی مرضی سے نہیں اپنے ارادے سے نہیں
ہر مسافر کے قدم اٹھتے ہیں منزل کی طرف

تم کو کیا معلوم کیا بنتی ہے دل پر عشق میں
آئنہ لے کر ذرا دیکھو مقابل کی طرف

ہو گیا مخمورؔ راز زندگی کا انکشاف
موج آتی ہے فنا ہونے کو ساحل کی طرف


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.