رخ پر ہے ملال آج کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخ پر ہے ملال آج کیسا
by سخی لکھنوی

رخ پر ہے ملال آج کیسا
دل بر ہے ملال آج کیسا

اس خال سے کیا ملی ہے ذلت
اختر ہے ملال آج کیسا

بے یار نہیں ہوا ترا دور
ساغر ہے ملال آج کیسا

کیا آئی ہے یاد تیغ قاتل
اے سر ہے ملال آج کیسا

ہے راحت وصل کے جو آمد
مضطر ہے ملال آج کیسا

اندر میری آہ سن کے بولے
باہر ہے ملال آج کیسا

کیا آئی ہے کچھ خبر سخیؔ کی
گھر گھر ہے ملال آج کیسا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse